Maktaba Wahhabi

462 - 495
(3) جو جا نو ر پنجے سے شکا ر کر تے ہیں اور پنجے سے ہی پکڑ کر کھا تے ہیں، جیسا کہ با ز اور کو ا وغیرہ ۔ (4) جن جا نو روں کو ما ر نے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ سا نپ اور دیگر موذی جا نو ر ۔ (5) جن جا نو روں کو ما ر نے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ مینڈک وغیرہ ۔ ان کے علا وہ تمام جا نو ر حلا ل ہیں، بھینس بھی انہی حلال جا نو روں میں شامل ہے، ویسے بھی بے شما ر ایسے پر ندے ہیں جن کا ذکرصرا حت کے ساتھ نہیں ہوا کہ یہ حلا ل ہیں لیکن اس کے با و جو د ہم انہیں حلال سمجھتے ہیں، مثلاً: مر غا بی اور تیتر وغیرہ، لہذا یہ اصول غلط ہے کہ جس کی حلت یا حرمت کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن یا حدیث میں آجا ئے وہی حلا ل یا حرا م ہے ۔ سوال۔ لا ہو ر سے محمد یٰسین طہ(خریداری نمبر3424) لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست چند سا ل سے پر اسرار طو ر پر غا ئب ہیں تا حا ل ان کے متعلق کوئی خبر مو صول نہیں ہو ئی، اس کے کچھ کپڑے وغیرہ میر ے پا س بطو ر امانت مو جو د ہیں جن کے بو سیدہ اور ضا ئع ہو نے کا اندیشہ ہے کیا یہ پا رچہ جا ت کسی ضرورت مند کو دئیے جا سکتے ہیں ؟ جواب۔ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے: ’’مفقو د الخبر کی بیوی اور اس کے ما ل کا حکم۔‘‘ لیکن اس کے متعلق کو ئی فیصلہ نہیں فر ما یا، البتہ آپ کا ر جحا ن پیش کر دہ احا دیث و آثا ر سے معلوم ہو تا ہے، اس لیے کہا جا تا ہے کہ امام بخا ری کے عنوا نا ت خامو ش مگر ٹھو س ہو تے ہیں ،چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ایک لونڈی خرید ی، اس کی قیمت ادا کر نے سے پہلے مالک لا پتہ ہو گیا، ایک سا ل تک اسے تلا ش کیا لیکن وہ نہ مل سکا ،پھر آپ نے اس لو نڈی کی قیمت کو بطو ر صدقہ خرچ کر دیا اور فر ما یا :اگر اس کا ما لک مل گیا تو اسے قیمت ادا کر دوں گا اور صدقہ کے ثوا ب کا خو د حقدار ہو ں گا، اگر وہ اپنی طرف سے صدقہ کر دے تو اس کی صوابد ید پر ہے ۔(فتح البا ری : 9/532) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح منقول ہے، ان تمام حضرات نے مفقو دا لخبر کے ما ل کو گر ی ہو ئی چیز پر قیا س کر تے ہو ئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ سال تک اس کا انتظا ر کیا جا ئے اگر نہ مل سکے تو وہ ما ل اس کی طرف سے صد قہ کر دیا جا ئے، اگر اس کے بعد وہ مل جا ئے تو صد قہ کا اجر یا ما ل لینے کا اختیار دیا جا ئے ،صورت مسئو لہ میں مفقو دالخبر کے کچھ کپڑے وغیرہ بطو ر امانت سا ئل کے پا س مو جو د ہیں جن کے بو سیدہ اور ضا ئع ہو نے کا بھی اند یشہ ہے،پیش کر دہ تصریحا ت کی روشنی میں یہی فیصلہ دینا منا سب ہے کہ ملبو سا ت کی قیمت کا حساب اپنے پا س رکھ لیا جا ئے اور لا پتہ دوست کی طرف سے ان پا ر چہ جا ت کو مسا کین اور ضرورت مند پر صد قہ کر دیا جا ئے، اگر گم شدہ شخص صد قہ کر نے کے بعد واپس آجا ئے تو اختیا ر دیا جا ئے اگر صدقہ بحا ل رکھے تو عند اللہ ثواب کا حقدار ہو گا، اگر اپنے کپڑو ں کی قیمت لینا چا ہے تو اسے قیمت دے دی جائے اور صدقہ کے ثواب کا حقدار وہ شخص ہو گا جس کے پا س کپڑے بطو ر اما نت پڑے تھے اور اس نے مسا کین کو دے دئیے تھے ۔ سوال۔ لدھڑ ضلع سیا لکوٹ سے محمد افضل صا ر م لکھتے ہیں کہ بر یلوی حضرات ختم ثا بت کر نے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو ر دونوش کی اشیا ء آگے رکھ کر دعا پڑھی تھی ۔ جواب۔ واقعہ یہ ہے کہ غزوہ ٔخندق کے مو قع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سمیت حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر دعوت طعام
Flag Counter