کسی نے بتا یا ہے کہ عورت غیر مر د کو جسم کا نا پ نہیں دے سکتی اور نہ ہی غیر مر د عورتوں کے کپڑے دیکھ سکتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ کا م حرا م ہے، مسئلہ کی وضاحت فر ما دیں ؟ جوا ب ۔لبا س انسا نی فطرت کا ایک اہم مطا لبہ ہے، قرآن کر یم نے اس کی غر ض و غا یت با یں الفا ظ بیان کی ہے : کہ تمہا ر ے جسم کے قا بل شر م حصے کو ڈھا نکتا ہے اور تمہا ر ے لیے جسم کی حفا ظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہے ۔(7/الاعراف :26) یعنی لبا س انسا ن کی ستر پو شی، جسم کی حفا ظت اور اس کے لیے با عث زینت ہے، آیت کر یمہ سے معلو م ہو تا ہے کہ انسان کے لیے لبا س اخلاقی ضرورت ’’ستر پو شی ‘‘اس کی طبعی ضرورت ’’حفا ظت و زینت ‘‘سے مقدم ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ لبا س کا بنیا د ی فا ئدہ یہ ہے کہ وہ ستر پو شی کا فا ئدہ دے، اس کے بر عکس اگر لبا س اتنا با ر یک ہے کہ اس میں جسم کی جھلک نما یاں ہو یا سلا ئی اتنی چست ہے کہ جسم کے پو شیدہ حصو ں کے خدو خا ل نما یاں ہوں اس قسم کے لبا س کو ستر پو ش نہیں کہا جا سکتا اور ایک ایما ن دار درزی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے ایسے تنگ لبا س تیا ر کر نے سے پر ہیز کر ے جو سا تر ہو نے کے بجائے ان کی عریا نی کا با عث ہو ں، اس قسم کے لبا س کی اجر ت جا ئز نہیں ہے، خو اہ عورتیں خو د نا پ کا کپڑا بھیج دیں، اسی طرح عورتوں کو بھی چا ہیے کہ وہ ہمیشہ سا تر لبا س زیب تن کر یں، انتہا ئی بر یک اور چست لبا س سے اجتنا ب کر یں ،مغر ب اور مغر ب زد ہ لو گو ں کی تحریک عریاں کو نا کا م و نا مرا د بنا نے کے لیے تمام مسلمان عورتیں اپنے سا تر لبا س اور شر عی حجا ب کی پا بندی اختیا ر کر یں، اسلا می لبا س تیا ر کر نے کی اجر ت لی جاسکتی ہے لیکن عورتوں کے جسم کی خو د پیما ئش نہ لے بلکہ یہ کا م اپنی عز یز ہ بہن بیٹی وا لدہ ،بیو ی وغیرہ سے لیا جا سکتا ہے۔ عورت کے جسم کو بلا و جہ ہا تھ لگا نا حرا م ہے، با لخصوص جسم کے ان حصوں کو چھو نا جو اعضا ئے صنفی کہلا تے ہیں اور جن سے شہو انی جذبات ابھر نے کا اند یشہ ہے، اس کا م کے لیے مند ر جہ ذیل با تو ں کا خیا ل رکھنا ہو گا : (1)مردوں اور بچوں کے لبا س تیا ر کیے جا ئیں ۔ (2) عورتوں کے سا تر لبا س تیا ر کیے جا سکتے ہیں، بشر طیکہ ان کی پیما ئش خو د لی جا ئے بلکہ ان کے کپڑوں کے نا پ سے کا م چلا یا جا ئے ۔ (3)بہتر ہے کہ خا تون کسی ٹیلر کی خدمت حاصل کر یں اور شر عی حدود میں رہتے ہو ئے ان سے لبا س تیا ر کرا ئیں ۔ مختصر یہ ہے کہ لبا س تیا ر کرتے وقت مذکو ر ہ با لا قرآنی ہدا یت کو ضرور مد نظر رکھا جا ئے کیو ں کہ لبا س تو تقو ی کا ہی بہتر ہے ۔ سوال۔ کما لیہ سے عبد العلیم لکھتے ہیں کہ بھینس کا ذکر قرآن وحدیث میں نہیں ہے، اس کے حلال ہو نے کا فیصلہ کیسے کیا جا ئے گا ،وضا حت کر یں ؟ جواب۔تمام جا نو روں کے نا م بنا م حلت و حر مت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے، شر یعت میں حر مت کے متعلق چند ایک اصول بتا دئیے گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں : (1)وہ تمام جا نو ر حرا م ہیں جن کی حر مت کے متعلق صرا حت آچکی ہے جیسا کہ گھر یلو گد ھے ہیں ۔ (2)جو جا نو ر کچلی والے ہیں وہ بھی حرا م ہیں، جیسا کہ چیتا اور بھیڑیا وغیرہ ۔ |