کہا جا تا ہے۔ اصل نفا ق یہی ہے۔ زما نہ وحی میں اللہ تعا لیٰ بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے منا فقین کے با ر ے میں آگا ہ کر دیتے تھے، البتہ اس دور میں ان کی تعیین انتہا ئی مشکل ہے ۔ (2)انسا ن مسلما ن ہو لیکن اس میں منا فقین کی خصلتیں پا ئی جا تی ہیں ،احا دیث میں ایسی چند خصلتوں کی نشا ندہی کی گئی ہے جنہیں منا فقین کی علا مت اور نشا نی قرار دیا گیا ہے، مثلاً بات بات پر جھوٹ بو لنا، وعدہ خلافی کر نا، لڑا ئی جھگڑے کے وقت فحش گا لی دینا، غداری کا مر تکب ہو نا اور امانت میں خیا نت کر نا وغیرہ، اسے شا ر حین عملی اور اخلا قی نفا ق قرار دیتے ہیں، اگر کو ئی یہ خصلتیں دا ئمی عا دت کے طو ر پر اپنا ئے ہو ئے ہے تو ایسا انسا ن پختہ عملی منا فق ہے ، اعتقا دی منا فقین کے متعلق ارشا د با ری تعا لیٰ ہے کہ انہیں جہنم کے نچلے گڑ ھے میں پھینکا جا ئے گا، اس کے علا وہ دنیا میں ان کے لیے کو ئی سزا نہیں ہے ۔ سوال۔ سیا لکو ٹ سے حا فظ احمد دریا فت کر تے ہیں کہ جہنم کا عذا ب محددو مدت کے لیے ہے، مدت ختم ہو نے کے بعد کیا جہنم کو ختم کر دیا جا ئے گا، نیز ہم نے سنا ہے کہ شیطا ن (ابلیس )کو کسی ایسے اسم اعظم کا علم ہے جس کے ذریعے وہ دعا کر ے گا تو اللہ تعا لیٰ اس کی دعا قبو ل کر کے اسے جہنم سے آزاد کر دیں گے اور اسے جنت میں دا خلہ مل جا ئے گا ؟ جواب۔اہل جہنم کے متعلق ارشاد با ری تعا لیٰ ہے کہ وہ جہنم میں مدتوں پڑے رہیں گے ۔(4/النسا ء :23) اس آیت کر یمہ سے بعض لو گو ں نے یہ مطلب کشید کر نے کی کو شش کی ہے کہ جہنم کا عذاب ایک محدود مدت تک کے لیے ہو گا، کیوں کہ احقا ب، حقب کی جمع ہے جس کا معنی مد ت درازہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ مدتیں خوا ہ کتنی ہی طویل ہو ں با لآخر وہ ختم ہو جا ئیں گی، لیکن یہ خیا ل در ست نہیں ہے کیوں کہ حقب کا معنی ہے :پے در پے آنے والا طو یل دورا نیہ کہ ایک دور ختم ہو نے کے بعد دوسرا شروع ہو جا ئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احقا ب ایسے ادوار کے لیے بو لا جا ئے گا جو مسلسل ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جا ئیں اور کو ئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے بعد دوسرا نہ آئے ، اس کے علا وہ جہنم کے متعلق یہ خیا ل کہ اسے محدود مدت کے لیے با قی رہنا ہے قرآن کر یم کے دیگر بیا نا ت سے ٹکرا تا ہے جن میں اہل جہنم کے لیے خلود (ہمیشگی ) کا لفظ استعما ل کیا گیا ہے بلکہ بعض مقا ما ت پر اس خلو د کو مؤ کد کر نے کے لیے ابد (ہمیشہ ہمیشہ )کے الفا ظ بھی قرآن کر یم نے استعمال فر ما ئے ہیں بلکہ ایک مقا م پر تو یہ صراحت موجو د ہے کہ وہ اہل جہنم چا ہیں گے کہ جہنم سے نکل بھا گیں مگر وہ اس سے ہر گز نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لیے قا ئم رہنے والا عذا ب ہے ۔ (5/المائدہ :37) کیا ان تصریحا ت کے بعد بھی اس تصور کی گنجا ئش ہے کہ جہنم میں اللہ کے با غی ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ کبھی نہ کبھی وہ اس سے نکلنے میں کا میاب ہو جا ئیں گے ۔(العیا ذبا للہ ) نیز شیطا ن (ابلیس ) کے متعلق سوال میں جو مفروضہ قا ئم کیا گیا ہے کہ اسم اعظم کا علم ہے جس کے ذریعے وہ جہنم سے نکل جا ئے گا اور جنت میں دا خلہ مل جا ئے گا اگر اسے صحیح ما ن لیا جا ئے تو اس عا لم رنگ و بو میں معر کہ حق و با طل ایک کھلنڈرے کا کھیل معلو م ہو تا ہے ،قرآن کریم میں کئی ایک مقا ما ت پر اس با ت کی صرا حت مو جو د ہے کہ ابلیس اور اس کے پیرو کا ر جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعا لیٰ نے ابلیس کو صرف قیا مت تک زندہ رہنے کی مہلت دی ہے تا کہ اولا د آدم کو گمرا ہ کر نے کے متعلق اپنے |