بخا ری میں وضا حت ہے کہ ابو عمیر رضی اللہ عنہ نے یہ پر ندہ محض تفر یح طبع کے لیے رکھا تھا۔ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے سا ٹھ سے زیا دہ مسا ئل کا استنبا ط کیا ہے، چند ایک درج ذیل ہیں : (1)بچوں کا دل بہلا نے اور ان کی تفریح طبع کے لیے ما ل خر چ کر نا جائز ہے ۔ (2)پرندوں کو تفریح کے طو ر پر گھر میں رکھا جا سکتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں : (1لف)انہیں پنجروں میں بند کر دیا جا ئے ۔ (ب) ان کے پر کا ٹ دئیے جا ئیں ۔ دونو ں صورتیں جا ئز ہیں بشر طیکہ ان کی خو راک کا اہتمام کیا جا ئے ۔بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث میں حیوا نا ت کو تکلیف دینے کی مما نعت ہے، لہذا پر ندوں کو اس طرح بند رکھنا جا ئز نہیں بلکہ منسو خ ہے ۔علامہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جوا ب دیا ہے کہ بچوں کے لیے دل بہلا وے کے طور پر گھر میں پر ندوں کا رکھنا جائز ہے، البتہ انہیں تنگ کر نے کے لیے رکھنا جا ئز نہیں، جس کی صورت یہ ہے کہ ان کی خوراک اور پا نی وغیرہ کا اہتمام نہ کیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عورت کو صرف اس لیے عذا ب دیا گیا کہ اس نے گھر میں بلی کو با ند ھ رکھا تھا نہ تو اسے خوراک مہیا کر تی اور نہ ہی اسے آزاد کر تی تا کہ وہ خو د اپنی خورا ک کا اہتمام کر لے ۔(فتح الباری :10/718) اس تفصیل سے معلو م ہو ا کہ چھوٹے بچوں کی تفریح طبع یا گھر کی زینت کے لیے پرندوں کو گھر میں رکھا جا سکتا ہے، بشر طیکہ ان کے حقوق کا پو را پورا خیا ل رکھا جا ئے ۔ سوال۔ خا نیوال سے محمد علی دریا فت کرتے ہیں کہ سا نپ حلال ہے یا حرام، نیز سمندری سا نپ کے متعلق کیا حکم ہے ؟ عا م مشہور ہے کہ سا نپ کا سر الگ کر کے با قی حصہ کھا یا جا سکتا ہے، کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب۔سا نپ کی حلت و حر مت کے متعلق صریح طو ر پر کسی حدیث میں ذکر نہیں ہے، البتہ حلا ل و حرا م کے متعلق جو عا م شر عی اصول ہیں ان کی رو سے سا نپ حرا م معلو م ہو تا ہے کیو ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سا نپ کو قتل کر نے کا حکم دیا ہے (بخا ری ) نیز محرم آدمی پر اس کے قتل کر نے کا کوئی فدیہ نہیں ہے۔ ( صحیح مسلم ) اسے مو ذی جا نو روں میں شما ر کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس کی ایذا رسا نی کی بنا پر اسے مار ڈا لنے کا حکم اس کے حرا م ہو نے کی نشا ندہی کر تا ہے اگر چہ امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس کی حلت منسو ب ہے ۔(مغنی 8/ 605) تا ہم دیگر ائمہ کرا م نے ان سے اتفا ق نہیں کیا، البتہ سمندری سا نپ کا حکم اس سے الگ ہے کیو ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندری جا نو روں کو حلال قرار دیا ہے، اس لیے اگر کسی جا نو ر کی زند گی کا دارومدار پا نی اور پانی میں رہنا ہے تو اسے کھا نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے، البتہ سا نپ کی گر دن اتا ر کر با قی حصہ استعما ل کر نا ایک خو د سا ختہ مسئلہ ہے، احا دیث میں اس کا کو ئی ذکر نہیں ہے ۔ سوال۔ملتا ن سے ایک خا تو ن سوال کر تی ہے کہ عورت کو سر کے با ل کا لے کر نا جا ئز ہے یا نہیں اگر کا لے کر نے کی اجا زت ہے تو کس چیز کو استعما ل کیا جائے ؟ یا صرف سر خ مہندی ہی لگا ئی جا ئے ؟ تفصیل سے جواب دیں ۔ |