Maktaba Wahhabi

452 - 495
جواب۔عورت کے با ل اس کی خو بصورتی ہے ان پر تو جہ دینا اور ان کی اصلا ح وآراستگی شریعت کے دائرہ میں کی جا سکتی ہے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہدایت کو پیش نظر رکھنا ہو گا ۔ (1)با ل اگر سفید ہیں تو اسے مہندی یا زعفرا ن سے رنگا جا سکتا ہے لیکن انہیں سیا ہ کر نا جا ئز نہیں ہے، محد ثین نے سفید با لو ں کو سیا ہ کر نا کبیرہ گنا ہو ں سے بتا یا ہے، ایسا کر نے سے انسا ن اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے، ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے :"اللہ تعا لیٰ جوا نی کے بعد کمزوری اور بڑھا پے کا دور لا تا ہے۔ (الرو م ) با لو ں کو سیا ہ کر نا قدرت کی اس نشا نی کو کم کر نے کے مترادف ہے ،پھر ایسا کر نا دھو کہ اور فر یب بھی ہے جس سے شریعت نے منع فر ما یا ہے، اس کی ممانعت کے متعلق متعدد احا دیث کتب احا دیث میں مروی ہیں، اختصا ر کے پیش نظر ہم صرف ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ۔ (2)فتح مکہ کے دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وا لد گرا می حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا یا گیا جب کہ ان کے سر اور داڑھی کے با ل با لکل سفید ہو چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ اس سفیدی کو تبدیل کر و لیکن سیا ہ رنگ سے اجتناب کر و ۔ (صحیح مسلم :کتا ب اللبا س ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر و جو ب کے لیے ہے جس کی خلا ف ورزی حرا م ہے ،علا مہ نو وی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ سیا ہ رنگ کا خضا ب حرا م ہے ۔ (شرح نو وی :2/199) (3)با لو ں کی زیبا ئش و آرائش اور جما ل و زینت صرف خا و ند کے لیے ہو نی چا ہیے، اس کے علا وہ دیگر غیر محا رم کے سا منے ان کی نما ئش کر نا حرا م ہے۔ عورت کے با ل اس کے ستر میں شا مل ہیں، لہذا دوران نماز انہیں ڈھا نپناہو گا ،خواہ گھر میں صرف خا وند ہی کیو ں نہ ہو حتی کہ والد اور بھا ئیوں کے سا منے بھی ان کا کھو لنا جا ئز نہیں ہے ۔ (4)با لو ں کی خو بصورتی کے لیے بیوٹی پا رلروں میں جا نا بھی درست نہیں ہے کیو ں کہ وہا ں کا م کر نے والے مرد کا فر عورتیں بھی ہو تی ہیں جن کے سا منے با لو ں کا کھو لنا جا ئز نہیں ہے، عورت کو چا ہیے کہ وہ اپنے با لو ں کی آرائش اپنے گھر میں رہ کر کرے ۔ (5)با لو ں کا فطری رنگ سیاہ ہے ،اس فطری رنگ کو ڈائی کرا نا اور سنہری یا دوسرے رنگوں میں انہیں تبدیل کر نا فطری حسن کو تبدیل کرنا ہے جس کی شریعت میں اجا زت نہیں ہے ،صرف سفید با لو ں کو سیاہ رنگ کے علاوہ سر خ یا زعفرا نی رنگ کر نا جا ئز ہے ۔ (6)سفید با لو ں کو چھپا نے کے لیے سیا ہ وگ استعما ل کر نا بھی درست نہیں ہے، حدیث میں با لو ں کے سا تھ دوسرے با لو ں کا پیوند کر نا باعث لعنت عمل بتایا گیا ہے، اس جدید دور میں وگ کا استعمال متبا دل ہے، لہذا با حیا اور اہل ایما ن خا تو ن کو اس سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔ سوال۔لا ہو ر سے عطاء الرحما ن لکھتے ہیں کہ حضرت امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کہا جا تا ہے کہ وہ شا فعی المسلک تھے اور اپنی صحیح بخا ری میں انہوں نے اسی مسلک کی تر جما نی کی ہے ،اس کے متعلق وضا حت فر ما ئیں ۔ جواب۔امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ فقہی فروعات اور اجتہا دی مسا ئل میں دنیا کے مرو جہ مسا لک سے با لکل آزاد ہیں، وہ مرو جہ طر یقہا ئے فکر سے کسی کے بھی پا بند نہیں ،ان کی ما یہ نا ز تصنیف الجا مع الصحیح اس وقت ہما ر ے سا منے ہے جسے جملہ مکا تب فکر کے ہا ں پڑھا پڑھا یا جا تا ہے ،یہی وہ پا کیزہ نو شتہ ہے جس سے ہمیں امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کا پتہ چلتا ہے، ایما ن و علم ، عبا دا ت و معاملا ت، معا شیات و اخلا قیا ت، تعلقات و محا ربا ت اور بد عا ت سے اجتناب جیسے اہم گو شے اس کی وسعت میں سمو دئیے گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امام بخا ری نے نو اقض وضو کے متعلق عنوان با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے :"کو مخر جین یعنی قبل اور دبر کے علا وہ کسی اور چیز کو نا قص وضو نہیں ما نتے ، نا قص وضو کے متعلق نہ پو رے طور پر شوافع سے متفق ہیں اور نہ ہی ہمہ وجو ہ سے ما لکیہ کے ہم نو اہیں اور نہ ہی کلی طو ر پر آپ نے احنا ف کی مخا لفت کی ہے بلکہ اس سلسلہ میں مستقل طو ر پر ان کی اپنی را ئے ہے، امام بخا ری قے نکسیر خو ن اور پیپ وغیرہ کے نکلنے سے احنا ف کے مخا لف ہیں اور عورت کو ہا تھ لگا نے سے وضو ٹو ٹ جا نے کے متعلق وہ موا لک کی مخا لفت کر تے ہیں، اسی طرح اگر مخر جین سے کو ئی کیڑا وغیرہ برآمد ہو تو وضو ٹو ٹے گا یا نہیں ؟ اس کے متعلق وہ موالک کی مخا لفت کر تے ہیں، الغر ض وہ کلی طو ر پر احنا ف، موا لک اور شوا فع میں سے کلی طو ر کسی کے ساتھ متفق نہیں ہیں بلکہ وہ صا حب اجتہا د ہیں، متعدد مقا ما ت پر انہو ں نے شوافع کی تر دید فر ما ئی ہے جس کی وضاحت حسب ذیل ہے : (1)شوافع کا مو قف ہے کہ زکو ۃ جہا ں سے وصو ل کی جا ئے وہا ں کے فقراء میں اسے تقسیم کیا جا ئے دوسری جگہ اسے تقسیم کر نا ان کے ہا ں درست نہیں ہے۔ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تر دید کر تے ہو ئے ایک عنوا ن یو ں قا ئم کیا ہے :"اغنیاء سے صدقہ لے کر فقراء کو دیا جا ئے خوا ہ وہ کہا ں کے رہنے والے ہوں : (2)شوافع کا خیا ل ہے کہ زکوۃ ان تما م مصا رف پر خر چ ہو نی چا ہیے جن کا ذکر قرآن کر یم میں ہے ۔امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کے نز دیک یہ پا بندی صحیح نہیں ہے اگر ضرورت ہو تو پو ری زکو ۃ ایک مصر ف پر بھی خر چ کی جا سکتی ہے، آپ نے ایک عنوا ن قائم کیا ہے صدقہ کے اونٹ اور ان کا دودھ صرف ابناء السبیل پر استعما ل کر نا ۔ (3)شوافع کے نزدیک جمعہ کے لیے کم از کم چا لیس آدمیو ں کا اجتماع ضروری ہے، امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تر دید فر ما ئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صرف با ر ہ آدمیوں کے ہمرا ہ نما ز جمعہ ادا فر ما ئی۔ یہ مو قف شوافع کے خلا ف ہے ۔ (4)امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نز دیک سر کے مسح کے متعلق کسی قسم کی تحدید نہیں ہے، ان کے نز دیک سر کے کسی بھی حصہ کا مسح فرض کی ادائیگی کے لیے کا فی ہے، خواہ اس کی مقدار ایک یا دو با ل ہی کیو ں نہ ہو ، لیکن امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پو ر ے سر کا مسح کر نا ضروری ہے، انہوں نے اس کے متعلق ایک باب با یں الفاظ قائم کیا ہے: "پو ر ے سر کا مسح کر نا۔‘‘ اسی طرح امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر مسا لک سے بھی اختلا ف کیا ہے، بخا ری کے طا لب علم پر یہ با ت مخفی نہیں ہے ۔ (5)حنا بلہ کا مشہور مسلک ہے کہ جمعہ قبل زوال بھی درست ہے لیکن حضرت امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تر دید کر تے ہو ئے ایک عنوا ن یو ں قا ئم کیا ہے’’ جمعہ کے وقت کا آغا ز زوال آفتا ب سے ہو تا ہے ۔‘‘ (6)حیوا نا ت کے سور اور ان کی حلت و حر مت کے متعلق امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے موا لک کے مشہور مسلک کی مخا لفت فر ما ئی ہے۔ حا صل کلا م یہ ہے کہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخا ری میں ایک خا ص مسلک کو اختیا ر فر ما یا ہے جس کی بنیا د صرف کتا ب و سنت ہے۔ مذاہب اربعہ سے کسی کی موافقت یا مخالفت کا انحصا ر دلیل پر ہے، اس لیے ان کی شا فعیت یا حنبلیت کا دعویٰ صرف خو ش فہمی ہے۔ صحیح بخا ری کے مطا لعہ کر نے سے یہ با ت روز روشن کی طرح واضح ہو جا تی ہے ۔ سوال۔کا مو نکی سے محمد یو سف سوال کر تے ہیں کہ میر ے ایک بیٹے کے ہاں اولا د نہیں ہے جبکہ دوسرے بیٹے نے اپنی نوز ائیدہ
Flag Counter