مقصد یہ ہے کہ عورتو ں کی نیت اظہا ر زینت کی نہیں ہو نی چا ہیے، ان میں یہ جذ بہ ہر گز نہیں ہو نا چا ہیے کہ اپنی آرائش غیرو ں کو دکھا تی پھر یں، انہیں اپنی طر ف سے اخفا ئے زینت کی کو شش کر نی چا ہیے، اگر کو ئی زینت یا اس کا حصہ اضطر ارا کھل جا ئے تو اس پر با ز پر س نہیں ہو گی ۔عورتیں جن کپڑو ں میں اپنی زینت کو چھپائیں گی وہ تو بہر حا ل ظا ہر ہی ہو ں گے ان کا قدو قا مت، ڈیل ڈول اور جسما نی تنا سب تو ان میں محسو س ہو گا ۔ان تمام تحفظا ت کے با و جو د اگر کو ئی کمینہ نظر بد سے با ز نہیں آتا تو وہ اپنی بد نیتی کی سزا خو د بھگتے گا ،اگر چہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے یہی مر وی ہے کہ اس سے عورت کا چہرہ ہا تھ اور انگو ٹھی وغیرہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ عورت اپنے منہ کو سرخی پاؤڈر اور سرمے سے ،پھر اپنے ہاتھوں کو انگو ٹھی، چھلے اور کنگن وغیرہ سے آراستہ کر کے لو گو ں کے سا منے آئے اور انہیں دعوت نظا ر ہ دے، آخر ظا ہر ہو نے اور ظا ہر کرنے میں کھلا فرق ہے۔ قرآن کر یم واضح طو ر پر ظا ہر کر نے سے منع کر کے صرف ظا ہر ہو نے کے معا ملہ میں رخصت دے رہا ہے ۔ اس رخصت کو ظا ہر کر نے کی حد تک وسعت دینا شا رع کے منشا کے با لکل خلا ف ہے۔ حا فظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ نے آیت پر دہ (33/الاحزا ب : 53)کے نا ز ل ہو نے سے پہلے کی حا لت بیا ن کی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سورۃ احزا ب آیت نمبر 59کی تفسیر با یں الفا ظ مر وی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعا لیٰ اہل ایما ن کی خوا تین کو حکم دے رہا ہے کہ جب وہ کسی کا م کے لیے اپنے گھرو ں سے نکلیں تو اپنے چہرو ں کو اپنے سر کی چا در سے ڈ ھا نپ لیں راستہ دیکھنے کے لیے صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔(تفسیر ابن کثیر سورۃ احزا ب :آیت :59) اس کے با وجو د اگر کسی کو حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی تفسیر سے اپنی مطلب بر آری کشید کر نے پر اصرار ہو تو بھی اس سے کچھ زیا دہ فا ئدہ اٹھا نے کی گنجا ئش نہیں ہے، کیو ں کہ ان کے مقابلہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر مو جو د ہے ،ایسی صورت حا ل میں ضروری ہے کہ دو نو ں اصحا ب کی تفسیر سے ایک کو دلائل اور خا رجی قرائن سے ترجیح دی جائے، پھر جو تفسیر راجح قرار دیں اس پر عمل کیا جا ئے ۔ بہر حا ل یہ با ت دلا ئل سے ثا بت ہے کہ عہد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم میں حکم حجا ب آجا نے کے بعد اہل ایمان خو اتین کھلے منہ نہیں پھر تی تھیں اور حجا ب کے حکم میں منہ کا پردہ شا مل تھا اور حرا م کے علا وہ دوسری تمام حا لتو ں میں نقا ب کو عورتوں کے لبا س کا ایک جزو بنا دیا گیا ،آخر میں ہم ہر اس مؤمن عورت کو پیغا م دینا چا ہتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکا م کی سچے دل سے پا بند رہے اور مو جودہ ننگی تہذیب کے کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو اور یہ با ت ذہن میں رہے کہ اپنے چہرے اور ہا تھو ں کی نما ئش کر نا یا لو گو ں کو دعوت نظا رہ دینا شا رع کا منشا ہر گز نہیں ہے ۔ سوال۔ کر تار پو ر سے خلیل الرحمن سوال کر تے ہیں عورتو ں کا جلسہ کر نا ،پھر اس میں کسی عورت کا تقر یر کر نا شر عاً کیسا ہے؟ اس پر بعض لو گ اعترا ض کرتے ہیں ۔ جوا ب ۔ دعوت و تبلیغ ہر مسلما ن مر دو زن کا حق ہے، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے:’’ مؤ من مر د اور عورتیں ایک دوسر ے کے خیر خوا ہ ہیں ،وہ اچھی بات کا حکم دیتے ہیں اور بر ی با تو ں سے منع کر تے ہیں ۔‘‘(9/التو بہ :71) |