تو ثیق نہیں کی ہے تا ہم قر ا ئن و شو اہد کی وجہ سے یہ روا یت در جہ حسن کو پہنچ جا تی ہے۔ امام تر مذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجہ سے اسے حسن غر یب کہا ہے۔ بہر حال سو مو ار اور جمعرات کے دن اعما ل پیش ہو نے کی رو ایت با لکل صحیح ہے، یہ ہفتہ وا ر رپو ٹ ہے جو اللہ کے حضو ر پیش کی جا تی ہے ۔ سوال۔کو ہا ٹ سے سید نا درشا ہ گیلا نی پو چھتے ہیں کہ عورت کو اپنے دیو ر سے پر دہ کر نا چا ہیے تو سورۃ النو ر میں (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) کی تفسیر ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے حو الہ سے با یں الفا ظ کی گئی ہے کہ اس سے مرا د عورت کا چہرہ اور دو نو ں ہا تھ ہیں ، اس کی وضا حت فر ما ئیں ۔ جوا ب۔ پر دے کی حکمت یہ ہے کہ معا شرے کو برا ئیو ں سے پا ک رکھا جا ئے لیکن پر دے کی یہ علت نہیں ہے اس کی علت غیر محر م ہو تا ہے ،اللہ تعا لیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے کہ کو ن محر م ہے جس سے پردہ نہیں اور کو ن غیر محر م ہے جس سے پردہ ضروری ہے۔ دیو ر ا ن رشتہ داروں میں سے ہے جن سے پر دہ فر ض ہے اور اسے اللہ تعا لیٰ نے محا رم میں شما ر نہیں کیا ہے، حدیث میں یہ مسئلہ بہت وضا حت سے بیا ن ہو ا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ خبردار ! عورتو ں کے پا س تنہا ئی میں مت جا ؤ،انصا ر میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !دیو راور جیٹھ کے متعلق کیا ارشا د ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" دیو ر تو موت ہے ۔‘‘(صحیح بخا ری :کتا ب النکا ح، حدیث نمبر 5232) ہم اس با ت کے پا بند نہیں ہیں کہ شرعی احکا م کی حکمتو ں کو تلا ش کریں کہ کہا ں حکمت پا ئی جا تی ہے کہا ں نہیں پا ئی جا تی، البتہ یہ پا بندی ضرور ہے کہ جہا ں شر عی حکم کی علت پا ئی جا ئے، اس پر عمل کیا جا ئے، خواہ حکمت نظر آئے یا نہ آئے، لہذا جو غیر محر م ہے اس سے پردہ فر ض ہے، اس با ت کی وضا حت بھی ضروری ہے کہ پردے کا مدار دل کے جذبا ت پر نہیں ہے کہ اگر کسی کے متعلق پا کیزہ جذبا ت ہیں تو اس سے پردہ نہیں ہے، دیکھئے ازواج مطہرا ت جو امت کی ما ئیں صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کے دلو ں میں ان کے متعلق جو پا کیزہ جذبا ت تھے وہ آج کسی میں بھی نہیں ہو سکتے، اس کے با و جو د ازوا ج مطہرات رضی اللہ عنہن نے ان سے پردہ کیا، چنانچہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے:’’ اور جب تم ان (مہا ت المؤمنین رضی اللہ عنہن ) سے کو ئی سا ما ن ما نگو تو پردے کی اوٹ سے ما نگو ، ایسا کر نے سے تمہا ر ے اور ان کے دل زیا دہ پا کیزہ رہیں گے ۔‘‘ (33/الاحزا ب :53) ان تصریحا ت کا تقا ضا ہے کہ عورت کو اپنے دیو ر سے پردہ کر نا چا ہیے ،سوال کے دوسرے جزو کے متعلق ہما ر ی گزا ر شا ت یہ ہیں کہ قرآن کا سیا ق با یں طور ہے اور اپنا بنا ؤ سنگھا ر نہ دکھا ئیں بجز اس کے خو د ظا ہر ہو جا ئے ۔ (24/النو ر :31) اس آیت کا مفہو م با لکل صا ف ہے کہ پر دے کے متعلق ایک حکم امتناعی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ وا ضح ہے، یعنی عورتو ں کو خو د اپنی آرا ئش وزیبائش کی نما ئش نہیں کر نا چا ہیے، البتہ جو خو د بخو د ظا ہر ہو جا ئے، جیسے چا در کا ہو ا سے اڑ جا نا اور کسی زینت کا ظا ہر ہو جا نا یا خو د ظا ہر ہو جیسے وہ چا در جو زینت کو چھپا نے کے لیے اوپر اوڑھی جا تی ہے اس کا چھپا نا تو ممکن نہیں ہے، بہر حا ل وہ چا در عورت کے جسم پر ہے لیکن اس کے ظا ہر ہو جا نے یا ظا ہر ہونے میں عورت کے ارادہ اور اختیا ر کو دخل نہیں، لہذا اس پر اللہ کی طرف سے کو ئی موا خذ ہ نہیں ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا یہی مطلب بیا ن کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ) شا رع کا |