Maktaba Wahhabi

444 - 495
کیا ، کسی نے بھی اس پر اعترا ض نہیں کیا۔ حضرت ابن بطا ل کہتے ہیں: اس حدیث سے ان کتا بو ں کے جلا دینے کا ثبو ت ملتا ہے جن میں اللہ کا نا م ہو کیو ں کہ یہی ان کی حرمت کو محفو ظ اور قد مو ں تلے آنے سے بچا ؤ کا ذریعہ ہے ۔(فتح البا ر ی) حضرت طا ؤس اور حضرت عروہ کے متعلق روا یا ت میں ہے کہ ان کے پا س جب ایسے خطو ط جمع ہو جا تے جن میں بسم اللہ لکھی ہو تی تھی تو وہ انہیں جلا دیتے تھے ۔(مصنف عبد الرزاق ) ہما ر ے ہا ں اس مسئلہ کو ایک جذبا تی رنگ دے دیا جا تا ہے، حا لا نکہ کسی کلمہ گو مسلما ن سے یہ تو قع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان کی بے حر متی کرتے ہو ئے جلائے گا، بلکہ ان کی حفا ظت کے لیے ایسا کیا جا تا ہے ۔ ملا علی قا ر ی حنفی لکھتے ہیں کہ بعض حضرات بو سیدہ اوراق کے جلا دینے کو بہتر خیا ل کر تے ہیں کیو ں کہ ایسا کر نے سے تو ہین اور بے حر متی کے تمام پہلو ختم ہو جا تے ہیں ،نیز دھو کر ان کے حرو ف صا ف کر دیئے جائیں تو لا زماً اس پا نی کو زمین پر بہا نا ہو گا تو یہ اپنے اندر بے حر متی کا پہلو رکھتا ہے، بعض دوسرے حضرات کا خیا ل ہے کہ اس کے حرو ف کو دھو کر صا ف کر نا بہتر ہے، پھر پا نی کو کسی پا کیزہ جگہ پر بہا دیا جائے ۔ (مرقا ۃ :ج 5ص29) لیکن یہ اقدام مو جودہ دور میں نا قا بل عمل ہے کیو ں کہ پر یس کے ایجا د کے بعد اس کے حرو ف کو دھو نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے، اس لیے ہما ر ی ناقص را ئے کے مطا بق ان مقدس اوراق کا جلا دینا ہی بہتر ہے کیو ں کہ حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ نے صحا بہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مو جو د گی میں انہیں جلا نے کا حکم دیا تھا اور یہی ان کے تقدس اور احترا م کے مطا بق ہے، پھر ان کی را کھ کو پا نی میں بہا دیا جا ئے یا اسے دفن کر دیا جا ئے، اگر چہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل میں را کھ غیر ہ کو محفو ظ کر نے کا ذکر نہیں ہے تا ہم احتیا ط کا یہی تقا ضا ہے کہ اسے دفن کر دیا جا ئے یا پا نی میں بہا دیا جا ئے تا کہ لو گو ں کی پا ما لی سے محفو ظ رہے ، بہتر ہے کہ یہ کا م عا م لو گو ں کے سا منے نہ کیا جا ئے بلکہ را ت کے وقت سر انجا م دیا جا ئے تا کہ لو گو ں کے لیے کسی قسم کے اشتعا ل کا با عث نہ ہو ۔ (واللہ اعلم با لصواب ) سوال،کرا چی سے عبد الحمید لکھتے ہیں کہ سو مو ار اور جمعرات کے دن اعمال کی پیشی کے متعلق کوئی حدیث ہے، اس کے متعلق تفصیل در کا ر ہے۔ جواب۔ سو مو ار اور جمعرا ت کے دن اللہ کے حضو ر اعما ل پیش کیے جانے کا ذکر صحیح احا دیث میں ملتا ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ما تے ہیں کہ لو گو ں کے اعما ل ہر ہفتہ میں دو دفعہ یعنی سوموا ر اور جمعرات کے دن پیش کیے جا تے ہیں ۔(صحیح مسلم:کتا ب البر،با ب النھی عن الشحناء) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو مو ار اور جمعرا ت کا روزہ رکھتے تھے ، اس کی وجہ دریا فت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ان ایا م میں اللہ کے حضو ر اعما ل پیش کیے جا تے ہیں ۔(مسند امام احمد :5/200) ترمذی کی روا یت میں وضا حت ہے، اس میں ہے کہ میں چا ہتا ہو ں کہ رو زے کی حا لت میں میرے اعما ل کی پیشی ہو ۔ (کتا ب الصوم ) ترمذی کی روا یت میں ایک راوی محمد بن رفا عہ ہے جس کی محدث ابن حبا ن کے علا وہ کسی دوسرے محد ث نے
Flag Counter