جوا ب۔بعض نا قا بل حجت روا یا ت کی بنا پر لیلۃ مبا ر کہ سے مرا د ما ہ شعبا ن کی پندرھو یں رات مراد لی گئی ہے جس کا نا م لو گو ں نے شب برا ءت رکھا ہے، پھر ستم با لا ئے ستم یہ ہے کہ جس قدر فضا ئل و مناقب لیلۃ القدر کے متعلق احا د یث میں وارد ہیں ان تمام کو شب براءت کے کھا تے میں ڈا ل کر اسے خوب روا ج دیا گیا ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ما ہ شعبا ن کے متعلق مندرجہ ذیل طر ز عمل منقو ل ہے ۔ (1)حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ما ہ شعبا ن میں بکثرت رو زے رکھتے دیکھا ہے ۔(صحیح بخا ر ی : الصوم ۔1969) (2)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما ہ شعبا ن کے پو ر ے رو زے رکھتے حتی کہ اسے ما ہ رمضا ن سے ملا دیتے۔ (ابو داؤد :الصوم ۔2336) شعبا ن کی پند رھو یں تا ر یخ کو صر ف ایک روزہ رکھنا جا ئز نہیں ہے، اسی طرح شب برا ءت کے قیا م کی بھی کو ئی شر عی حیثیت نہیں ہے ۔ سوال۔ شہداد پو ر سے حا فظ اللہ وسا یا لکھتے ہیں کہ ہما ر ے ہا ں قرآن کر یم کے پرا نے اور اق اور مذہبی اخبا ر و جر ائد کے جلا نے پر ایک ہنگامہ بر پا ہو گیا، بتائیے کہ ایسے اور اق کو کیا جا ئے تا کہ ان کی حر مت پا ما ل نہ ہو ؟ واضح رہے کہ قرآن مجید کے بو سیدہ اور اق اور قرآنی آیا ت پر مشتمل رسا ئل و جر ا ئد کی حفا ظت کے لیے ہما ر ے ہا ں کئی ایک طر یقے رائج ہیں ،بعض مقاما ت پر دیکھا گیا ہے کہ لو گو ں نے مقدس اور اق کے لیے قبر ستا ن میں ایک جگہ مخصوص کی ہو تی ہے، وہا ں قرآن مجید کے پھٹے پرا نے اوراق ڈا ل دیئے جا تے ہیں لیکن ایسا کر نے سے بعض اوقا ت ان کی بہت بے حر متی ہو تی ہے کیو ں کہ بعض اوقا ت تیز ہو ا چلنے سے کا غذاڑکر پلید جگہ پر گر جا تے ہیں، بعض حضرات زمین میں گڑھا کھو د کر اس میں دفن کر دیتے ہیں لیکن ایسا کر نے سے بھی ان کی بے حر متی کا خطر ہ بد ستو ر قا ئم رہتا ہے کیو ں کہ کسی وقت بھی زمین پلید ہو سکتی ہے یا ان اوراق کو دیمک وغیرہ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے، بعض لو گ ان اوراق کا بنڈل بنا کر پا نی میں پھنک آتے ہیں لیکن یہ کو ئی محفو ظ طر یقہ نہیں ہے، ہمار ے نزدیک ان تمام صورتو ں سے وہی صورت بہتر اور قابل عمل ہے جسے صحا بہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنا یا ،وہ حضرات ان اوراق کو جلا کر ان کی را کھ کو پا نی میں بہا دیتے تھے، چنانچہ روا یا ت میں ہے کہ جب حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی مختلف نقول تیا ر کر لیں تو جو مصا حف ان نقو ل کے مطا بق نہیں تھے انہیں جلا دیا گیا ۔ (صحیح بخا ری ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پا س خیبر کے لو گو ں نے حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے اس اقدا م کو جب جذبا تی اندا ز میں پیش کیا تو آپ نے فر ما یا : مصاحف کے جلا نے کے متعلق حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے لیے کلمہ خیر ہی کہو، انہو ں نے یہ کا م کر کے کو ئی برا اقدام نہیں کیا ۔(فتح البا ری :ج 9ص12) حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیا ن ہے کہ جب ان مصا حف کو جلا یا گیا تو بے شمار لوگ وہا ں مو جو د تھے، سب نے اس با ت کو پسند |