ہے، اگر چہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت مغیر ہ بن اخنس سے مرو ی ہے کہ اس را ت شعبا ن سے شعبا ن تک لو گو ں کی عمر یں لکھی جا تی ہیں ۔(تفسیرابن کثیر:4/137) لیکن اس کے متعلق آپ کا فیصلہ بھی مذکو رہے کہ یہ مر سل روا یت صحیح نصو ص کے خلا ف ہے، بہر حا ل ہر انسا ن کی مو ت و حیا ت اور رزق وغیرہ کا فیصلہ لیلۃ القدر میں ہو تا ہے جو ما ہ رمضا ن کے آخری عشرہ میں ہو تی ہے، اگر چہ یہ فیصلے اللہ کی تقدیر میں پہلے سے طے شدہ ہو تے ہیں، تا ہم اللہ تعا لیٰ سا ل بھر کے فیصلے فر شتو ں کے حو الے کر دیتا ہے تا کہ وہ انہیں اہل دنیا پر نا فذ کر یں۔ وا ضح رہے کہ اہل علم نے تقدیر کی چار اقسا م بیا ن کی ہیں : (1)تقدیر ازلی : اس سے مرا د اللہ کی وہ تقدیر ہے جو زمین و آسما ن کی پیدا ئش سے پہلے تحر یر کی گئی، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" کو ئی مصیبت ملک پر یا خو د تم پر نہیں آتی مگر اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کر یں ،وہ ایک خا ص وقت میں لکھی ہو ئی تھی ۔‘‘(57/الحدید :22) (2)تقدیر عمری ،یعنی عمر بھر کی تقدیر، اس کی دو انو اع ہیں : (الف)عہد و پیما ن کے وقت لکھی گئی تقدیر جس کے متعلق قرآن میں ہے: جب آپ کے ر ب نے اولا د آد م کی پشت سے ان کی اولا د کو نکا لا اور ان سے اقرار لیا کہ کیا میں تمہا ر ا رب نہیں ہو ں ؟ سب نے جوا ب دیا کیو ں نہیں ! ہم سب گو ا ہ بنتے ہیں تا کہ تم لو گ قیا مت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔ (7/الاعرا ف :172) (ب)شکم ما در میں تقدیر عمر ی کا بیا ن حدیث میں ہے کہ قرار نطفہ کے چا ر ما ہ بعد فر شتہ اس کی تقدیر کو لکھتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ وہ تمہیں خوب جا نتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔(53/النجم:32) (3)تقدیر حو لی: جس میں سا ل بھر کے فیصلے ہو تے ہیں، یہ کا م لیلۃ القدر میں سر انجا م پا تا ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔ (4)تقدیر یو می : ہر روز اس کے تا زہ فیصلو ں کا نفا ذ جیسا کہ ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے :وہ ہر رو ز کا م میں مصرو ف رہتا ہے ۔(55/الرحمن :29) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ ہر رو ز کسی کو بیما ر کر رہا ہے تو کسی کو شفا یا ب کر رہا ہے کسی کو ما لد بنا رہا ہے تو کسی ما لدا ر کو فقیر کر رہا ہے، کسی کو گد ا سے شا ہ اور شا ہ سے گدا ،الغر ض کا ئنا ت میں یہ سا ر ے تصرف اس کے امراور اس کی مشیت سے ہو ر ہے ہیں ،کا ئنا ت میں کو ئی لمحہ ایسا نہیں ہے جو اللہ تعا لیٰ کی کا ر گزا ر ی سے خا لی ہو، ما ہ شعبا ن کی پندر ھو یں را ت کے متعلق جو صلو ۃ خیر بیا ن کی جا تی ہے اس کے متعلق ملا علی قا ری حنفی لکھتے ہیں :" شب برا ء ت میں سو رکعت نما ز با جما عت یا انفرا دی طو ر پر اس کا ثبو ت کسی بھی صحیح حدیث میں نہیں ہے، ان کے متعلق دیلمی اور امام غزا لی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب مو ضو ع اور خو د سا ختہ ہے۔‘‘ (تحفۃ الا حو ذی : 2/53) بہر حا ل اس کے متعلق غنیۃ الطا لبین کے حو ا لے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا ثبو ت صحیح احا دیث سے نہیں ملتا ۔(واللہ اعلم ) سوال۔ٹھٹھہ حسن سے محمد اسما عیل ربا نی خریدا ری نمبر 6199لکھتے ہیں کہ شب برا ءت کے متعلق وضا حت کر یں کہ اس کی شر یعت میں کیا حیثیت ہے کیا اس دن روزہ رکھنا چا ہیے ۔ |