(فتاوی برائے خواتین:ص،275) جن روا یا ت میں سو نے کے زیو را ت پہننے کے متعلق و عید آئی ہے ان سے مرا د وہ زیو را ت ہیں جن کی زکو ۃ نہ ادا کی گئی ہو ،جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلو م ہو تا ہے ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہو ئی، اس کے ہمرا ہ اس کی بیٹی بھی تھی جس کے ہا تھ میں سو نے کے دو کنگن تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے در یا فت کیا: تو اس کی زکو ۃ دیتی ہے ؟ اس نے عرض کیا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کیا تجھے یہ پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعا لیٰ ان کے بد لے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنا ئے۔ یہ سن کر اس خا تو ن نے دو نو ں کنگن پھنک دیئے ۔ (ابو دا ؤد :زکو ۃ 1563) اس کے علا وہ دیگر قرائن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ زما نہ نبو ت میں خواتین زیو را ت استعما ل کر تی تھیں جیسا کہ عید الفطر کے مو قع پر حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کی جھولی میں خوا تین کی طرف سے زیو رات ڈا لنے کا ذکر احا دیث میں آیا ہے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال ۔ بدو ملہی چو دہری بشیر احمد ملہی (خریداری نمبر2244) لکھتے ہیں کہ غنیۃ الطا لبین میں شعبا ن کی پندر ھو یں را ت یعنی شب برا ت کے متعلق لکھا ہے کہ اس را ت آیندہ سا ل کی پیدا ئش وا موا ت لکھی جاتی ہیں اور اس میں رز ق بھی تقسیم ہو تا ہے، ہر سا ل ایسا ہو تا ہے جبکہ ہر انسا ن کی قسمت کا فیصلہ یعنی مو ت و حیا ت اور رزق وغیرہ کے متعلق اللہ تعا لیٰ نے پہلے طے کر رکھا ہے، وضا حت فر ما ئیں، اس کے علا وہ اس رات سو ر کعت پڑھنے کے متعلق بھی لکھا ہے کہ ہر رکعت میں دس دس مر تبہ سو ر ۃ اخلا ص پڑ ھی جا ئے، اسے صلو ۃ خیر کہتے ہیں ،اس کا اہتمام کرنے سے بر کت پھیلتی ہے، مز ید فر ما یا کہ ہما ر ے اسلا ف اس نما ز کو جماعت کے سا تھ پڑھتے تھے ،اس کی فضیلت بیا ن کی گئی ہے کہ اس نما ز کی وجہ سے اللہ تعا لیٰ ستر با ر نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور ہر با ر دیکھنے سے انسا ن کی ستر حاجتیں پو ری ہو تی ہیں، اس کے متعلق تفصیل سے لکھیں ۔ جواب۔قرآن کر یم میں ہے :" کہ ہم نے اس قرآن کو لیلہ مبا رکہ یعنی خیرو بر کت وا لی را ت میں نا ز ل کیا ہے کیو ں کہ ہمیں اس سے ڈرا نا مقصو د تھا ،اس رات ہما ر ے حکم سے ہر معا ملہ کا حکیما نہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔ (44/الدخا ن 3۔4) اسی را ت کو دوسرے مقا م پر لیلۃ القدر کہا گیا ہے کہ اس را ت کو بڑے اہم امو ر کے فیصلے کیے جا تے ہیں، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے: اس رات ملا ئکہ اور جبرائل اپنے پر وردگا ر کے اذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اتر تے ہیں ۔ (97/القدر :4) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس را ت اللہ تعا لیٰ افرا د وا قوام کی قسمتو ں کے فیصلے کر کے انہیں نا فذ کر نے کے لیے اپنے فر شتو ں کے حوا لے کر دیتا ہے،پھر وہ سال بھر اللہ کے فیصلے کے مطا بق عمل در آمد کر تے رہتے ہیں۔ احا دیث میں اس را ت کے متعلق صرا حت ہے کہ ما ہ ر مضا ن کے آخر ی عشر ہ کی طا ق راتوں میں آتی ہے مگر بعض نا قا بل حجت روا یا ت کی بنا پر انہیں دو الگ الگ را تیں قرار دیا گیا ہے۔ لیلۃ القدر سے مرا د ر مضا ن کے آخر ی عشرہ وا لی را ت اور لیلۃ مبا ر کہ سے ما ہ شعبا ن کی پندرھویں را ت مرا د لی گئی ہے جس کا نا م شب برا ءت ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ جس قدر فضا ئل و منا قب لیلۃ القدر کے متعلق احاد یث میں وارد ہیں ان تمام کو شب برا ءت کے کھا تے میں ڈا ل کر اسے خو ب روا ج دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ما ہ شعبا ن کے متعلق یہ منقو ل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے رو زے بکثرت رکھتے تھے، با قی اس را ت آیند ہ سال کی پیدا ئش و امو ات لکھی جا نے وا لی با ت سرے سے غلط |