Maktaba Wahhabi

440 - 495
فا سد عقا ئد و نظر یا ت دوسرے نما زیو ں میں بھی پھیلا ئے گا، ایسے شخص کے سا تھ تعلقا ت رکھنا شر عاً کیسا ہے، کیا ایسے شخص کو سلا م کر نا یا اس کے سلا م کا جو اب دینا درست ہے، کیا ایسے شخص کو زند یق کہا جا سکتا ہے، نیز ز ند یق کی شرعی طو ر پر سزا کیا ہے ؟ جواب ۔واضح ہو کہ دین اسلا م کی بنیا د قرآن اور اس کے بیا ن (حدیث)پر ہے، بیان قرآن کے لیے اللہ تعا لیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبو ث فر ما یا ہے ،آپ نے اپنے فر مو دا ت وار شادا ت اور سیر ت و کرا دار سے قرآن کریم کی وضا حت اور تشر یح کی ہے جو ہما ر ے پا س کتب حدیث کی شکل میں مو جو د ہے، لیکن دور حا ضر کے متجد دین کتب حدیث کو ہد ف تنقید بنا کر نہ صرف ان دفا تر حدیث کی تو ہین کا ارتکاب کر تے ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ اعزاز بھی چھیننا چاہتے ہیں جو خو د اللہ تعا لیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فر ما یا ہے۔ درا صل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر مو دا ت کے ذریعہ قرآن کے اجما ل کی تفصیل اور اطلا ق کی تنقید ان معتزلہ کو گو ار ا نہیں ،وہ صرف اپنی عقل عیا ر کو بنیا د بنا کر قرآن کر یم کی تشریح کر نا چا ہتے ہیں تا کہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے نا ز ل شدہ اس ضا بطہ حیا ت کو اپنی من ما نی تاویلا ت کی بھینٹ چڑھا یا جا سکے۔ ان کے نز دیک حدیث اور کتب حدیث ایک "عجمی سا ز ش" کا حصہ ہیں۔ صورت مسئولہ میں ایک ایسے شخص کے متعلق دریا فت کیا گیا ہے جو تو ہین رسا لت کے علا وہ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو بھی عز ت کی نگا ہ سے نہیں دیکھتا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تشتت و اختلا ف کا مو جب گر دا نتا ہے، ایسے ہی لو گو ں کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے: ایسے لو گو ں کے سا تھ مت بیٹھیں تا آنکہ وہ کسی دوسر ی با ت میں لگ جا ئیں ۔ (4/النسا ء : 40) ایسے شخص کو کسی مسجد یا دینی جما عت کا ممبر بنانا جا ئز نہیں ہے، اس کے سا تھ تعلقا ت اصلا ح احو ال کے لیے تو رکھے جا سکتے ہیں لیکن جب اس قسم کے گندے جر اثیم آگے منتقل ہو نے کا اند یشہ ہو تو ایسے عضو کو کاٹ دینا ہی بہتر ہو تا ہے، یعنی ایسے شخص سے رو ابط ختم کر لیے جا ئیں، ایسے شخص کو سلا م کرنے میں ابتدا نہیں کر نی چا ہیے ،البتہ اگر وہ سلا م کہتا ہے تو اس کا جو اب دیا جا سکتا ہے ،بلا شبہ ایسا انسا ن زند یق اور ملحد ہے اور اسلا می حکو مت میں ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور اس قسم کی سزا کا نفا ذ بھی اسلا می حکو مت کا کا م ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔چکی پنڈی گھیپ سے قا ری عبد الر حمن صدیق خریدا ری نمبر 5887لکھتے ہیں کہ عورتو ں کے لیے سو نے کے زیو رات جا ئز ہیں یا نہیں، اس کے عدم جوا ز پر ہما ر ے بعض علماء چند احا دیث پیش کر تے ہیں ،وضا حت فر ما ئیں ۔ جواب۔ حدیث میں ہے کہ سو نے کے زیو ارت مر دو ں کے لیے نا جائز ہیں جب کہ عورتو ں کو اس کے پہننے کی اجا زت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ اللہ تعالیٰ نے میر ی امت کے مردو ں کے لیے سو نے اور ریشم کو حرا م قرار دیا ہے اور عورتو ں کو اس کے پہننے کی اجا زت دی ہے ۔(نسا ئی : الزینۃ5267) شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سو نے کی با لیا ں پہننے کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے با یں الفا ظ جو اب دیا: اللہ تعا لیٰ کے در ج ذیل عمو می فر ما ن کے پیش نظر عورتو ں کے لیے سو نا پہننا جا ئز ہے ۔’’ کیا وہ جو زیو ارت میں پرورش پا ئے اور مبا حثہ میں صاف صاف با ت نہ کر سکے ۔‘‘(43/الزخرف:18) اس جگہ اللہ تعا لیٰ نے زیو ر کو عورت کے وصف کے طو ر پر بیا ن فر ما یا کہ جو کہ سو نے اور غیر سو نے کے لیے عا م ہے۔
Flag Counter