کر کے دیگر مما لک میں حصول بیعت کے لیے اپنے نما ئند گا ن مقرر کر دے تا کہ بغا و ت کی فضا سا ز گا ر کی جا ئے اور اس کے مقرر کر دہ نمائندے شہروں اور دیہا تو ں میں پھیل جا ئیں اور خو د سا ختہ خلیفہ کی بیعت لیتے پھر یں۔ ہما ر ے نز دیک یہ کھلی بغا و ت ہے جس کی شر یعت ہمیں اجا ز ت نہیں دیتی۔ حکو مت وقت کو چا ہیے کہ وہ ایسے لو گو ں کا سختی سے نو ٹس لے، ایسا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج اور طریقہ کا ر کے خلا ف ہے، ایسے پرفتن حا لا ت میں زند گی بسر کر نے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت سے را ہنما ئی ملتی ہے، چنا نچہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ ایسے حالا ت میں مسلما نو ں کی جما عت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا چا ہیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ اگر مسلما نو ں کی جما عت اور ان کا امام نہ ہو تو کیا کیا جا ئے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ایسے حا لا ت میں تمام فر قو ں سے الگ رہنا خو اہ تمہیں جنگل میں درختو ں کی جڑیں چبا کر ہی گز ر اوقا ت کر نا پڑے تا آنکہ تمہیں اسی حا لت میں مو ت آجا ئے۔ (صحیح بخا ر ی : کتا ب الفتن) حدیث میں ہے کہ جب عبد اللہ بن زیا د رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے شا م میں، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں اور خو راج نے بصر ہ میں اپنی اپنی حکو متوں کا اعلا ن کیا تو ابو المنہا ل اپنے با پ کے ہمرا ہ حضرت ابو برز ہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پا س گئے۔ میرے با پ نے ان سے عرض کیا: اے ابو برزہ ! آپ نہیں دیکھتے کہ لو گ کس قسم کے اختلا ف میں الجھے ہو ئے ہیں، ایسے حا لا ت میں ہمیں کیا کر نا چا ہیے ۔ آپ نے فر ما یا کہ میں قر یش کے لو گو ں سے نا را ض ہو ں اور میر ی نا را ضی اللہ کی رضا کے لیے ہے اور مجھے اس نا را ضی پر اللہ تعا لیٰ سے اجر ملنے کی امید ہے ۔عر ب کے لو گو ! تم جا نتے ہو کہ تمہا را پہلے کیا حا ل تھا، تم سب گمرا ہی میں گر فتا رتھے ،اللہ نے تمہیں دین اسلا م اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کے ذریعے اس بری حا لت سے نجا ت دی ،پھر تم مقا م عزت پر فا ئز ہو گئے، آج تمہیں اس دنیا نے خرا ب کر دیا ہے، یہ سب بز عم خو یش خلفا دنیا کے لیے آپس میں درست و گر یبا ن ہیں اور ایک دوسرے سے قتا ل کر رہے ہیں ۔(صحیح بخا ری : الفتن7112) ان احا دیث سے معلو م ہو اکہ آج ہمیں کتا ب و سنت کے مطا بق زند گی بسر کر نا چا ہیے، جب کبھی حا لا ت سا ز گا ر ہو جا ئیں کہ کتا ب و سنت کے علمبر دا ر باہمی اتحا د و اتفا ق سے کسی باا ختیا ر خلیفہ پر متفق ہو جا ئیں تو اس کی بیعت کے لیے تحر یک چلا نا منا سب اور با عث اجر و ثو اب لیکن کسی خو د سا ختہ خلیفہ جس کے متعلق ہمیں کو ئی علم نہیں اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھا ہے اس کی خلا فت کے لیے بیعت لینا، فضا سا ز گا ر کر نا اور تحر یک چلا نا حکو مت وقت کے خلا ف ایک کھلی بغا و ت ہے جس کی شر یعت ہمیں اجا ز ت نہیں دیتی ۔(واللہ اعلم بالصواب ) سوال۔نو ر پو ر سے حا فظ مقصو د احمد لکھتے ہیں کہ ایک شخص حدیث اور کتب حدیث پر اس طرح تنقید کر تا ہے کہ ان کی تو ہین کا پہلو نما یا ں ہوتا ہے، نیز وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی صحا بیت کا بھی منکر ہے، اس کے علا وہ وہ کہتا ہے کہ اسلا م میں پہلا اختلا ف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ڈا لا ،کیا اس طرح کے عقا ئد رکھنے والے کو مسجد کا ممبر بنا یا جا سکتا ہے با لخصوص جب کہ اند یشہ ہو کہ یہ اپنے |