ایما ندا رو ں میں فحا شی پھیلا نا چاہتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں سخت سزا کے حق دا ر ہیں ۔‘‘(10/التو بہ :19) اس آیت کر یمہ کی ز د میں وہ تمام ذرا ئع ووسا ئل آجا تے ہیں جو فحا شی پھیلا نے، بے حیا ئی عا م کر نے ،بد اخلا قی کی تعلیم دینے ، بے راہ روی پر اکسا نے ، جذبات بھڑ کا نے، جنسی خوا ہشا ت ابھا ر نے اور رقص وسرورکا سا مان مہیا کر نے میں پیش پیش ہیں ۔ٹیلی ویژن اگر چہ دنیا وی لحا ظ سے بے شما فوا ئد و منا فع کا حا مل ہے لیکن دینی اور اخلا قی اعتبا ر سے انتہائی نقصان دہ اور ضرررسا ں واقع ہو ا ہے، با لخصوص نئی پو د میں آلودگی اور نو جو ا نو ں میں حیا با ختگی پیدا کر نے میں اس نے بہت نما یاں کر دار ادا کیا ہے۔ ہما رے نز دیک ٹیلی ویژن کے دنیا وی فو ائد کے پیش نظر اس کے گھر میں رکھنے کا جو از مہیا کر نا ایک چو ر دروا ز ہ کھو لنا ہے، اس کے ذر یعے شیطا ن اور اس کی ذریت کو اپنے گھر کا مو قع فرا ہم کرنا ہے ،اس کے مفا سد کے پیش نظر مکمل طو ر پر اس سے اجتنا ب کر نا چاہیے اور بچو ں کو سختی سے منع کر نا چا ہیے، اس کے لیے اگر بچو ں کو تھو ڑی بہت سزا دی جا ئے تو اس سے بچو ں کے اخلا ق متا ٔثر نہیں ہو ں گے، جیسا کہ سائل نے اس خد شہ کا اظہا ر کیا ہے، اسلا می غیر ت اور دینی حمیت کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ ٹیلی ویژن کے متعلق اپنے ا ندر کو ئی نرم گو شہ نہ رکھا جائے۔ اس کے نقصا نا ت کی مختصر جھلک یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ایسے حیا سو ز ڈرا مے اور فحش منا ظر پیش کر تا ہے کہ انہیں دیکھ کر با حیا انسا ن کا سر شرم سے جھک جا تا ہے، چو ر ی ڈکیتی ما ر دھا ڑ کی عملی تر بیت دی جا تی ہے جس سے امن عا مہ تبا ہ وبر با د ہو رہا ہے، نیز اخلا ق و کردار بگا ڑنے میں بڑا مؤثر کر دار سر انجا م دے رہا ہے۔ اس کے علا وہ تصویر کو اس میں نما یا ں حیثیت دی جا تی ہے جو فتنہ و فسا د کی اصل بنیا د ہے جسے شر یعت نے حرا م قرار دیا ہے۔ ان کے علا وہ اور بھی بے شما ر نقصا نا ت ہیں جن کے پیش نظر اس سے کلی اجتنا ب کر نا ہی منا سب ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔مظفر گڑھ سے ظفراللہ پو چھتے ہیں کہ ایک حد یث میں خو شی کے وقت دف بجا نے کی اجا زت دی گئی ہے کیا اس روایا ت کو آلا ت موسیقی کے استعمال پر بطو ر دلیل پیش کیا جا سکتا ہے ؟ جوا ب ۔ دف اور آلا ت مو سیقی میں کو ئی مما ثلت نہیں ہے بلکہ آلا ت مو سیقی کے استعما ل کی حر مت قرآن و حدیث کی صریح نصو ص سے ثابت ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر ب قیا مت کی یہ علا مت بتا ئی ہے کہ لو گ اسے جا ئز سمجھ کر استعمال کر نا شرو ع کر دیں گے۔ قرآن کر یم نے ان آلات مو سیقی کو " لہوا لحدیث "کہہ کر ان سے نفر ت کا اظہا ر کیا ہے۔ سوال میں جس حد یث کی طرف اشا رہ کیا گیا ہے اس کی تفصیل کچھ یو ں ہے: مد ینہ منورہ میں کسی شا د ی کے مو قع پر انصا ر کی بچیا ں دف بجا کر اپنے اسلا ف کی شجا عت و بہا دری پر مشتمل اشعا ر پڑ ھ رہی تھیں۔ ان اشعا ر میں ایک مصرع کا مطلب یہ تھا کہ ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو کل کی با تیں بھی جا نتا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رو کا اور پہلی طرح اشعا ر پڑ ھنے کی تلقین فر ما ئی۔ اس حدیث کی رو شنی میں مند رجہ ذیل شرا ئط کو ملحو ظ رکھتے ہوئے خو شی کے مو قع پر دف کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ (1)دف صرف ایک طرف سے بجا ئی جا تی ہے اور اس کے بجا نے سے سا دہ سی آوا ز پیدا ہو تی ہو، اس کے سا تھ گھنگر وکی چھنکا ر نہیں ہو تی۔ (2)دف بجا تے وقت دیگر آلا ت مو سیقی استعمال نہ کیے جا ئیں کیو نکہ ان کی حر مت پر قرآن و حدیث کی واضح نصوص مو جو د ہیں ۔ |