Maktaba Wahhabi

410 - 495
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورا ن سفر جمعہ کے دن بھی ظہر کی دو رکعت اد ا کر تے تھے ،اس بنا پر جمعہ فو ت ہو جا نے پر سفر میں دو رکعت ادا کر نا ہی سنت ہے ۔ (2)عورتو ں پر نما ز جمعہ فرض نہیں ہے اگر وہ جمعہ ادا کر نا چا ہیں تو اجاز ت ہے، اگر جمعہ نہ ادا کر یں تو گھر میں نما ز ظہر ادا کر نا ہو گی اگر جمعہ اصل ہو تا تو انہیں گھر میں ہی دو رکعت ادا کر نے کا حکم ہو تا لیکن ایسا نہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ عورتو ں کو مخا طب کر کے فرماتے ہیں :" کہ اگر تم امام کے ساتھ نما ز جمعہ ادا کرو تو تمہا رے لیے اس کے سا تھ ( دو رکعت ) نما ز ادا کر نا ہی کا فی ہے اور اگر تم نما ز پڑھنا چا ہو تو چا ر رکعت ادا کر نا ہو گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :2/110) ان روایا ت سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے کہ جمعہ کے دن اصل نما ز ظہر ہے اور جمعہ اس کا بد ل ہے اگر بد ل رہ جا ئے تو اصل ادا کر نا چا ہیے، بعض صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے اس کے متعلق صریح نصو ص بھی منقو ل ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں ۔ (1)حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں :" کہ جو آد می جمعہ پالے ،اس کے لیے دو رکعت ہیں اور جو اس دن جمعہ سے رہ جا ئے اسے چا ہیے کہ چا ر رکعت ادا کر لے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/129) (2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں :" کہ جب تجھے امام کے ساتھ جمعہ کی ایک رکعت مل جا ئے تو دوسری رکعت اس کے سا تھ ملا لی جا ئے اور اگر تو بحا لت تشہد پڑھے تو چا ر رکعا ت ادا کر نا ہو ں گی ۔(بیہقی :3/204) (3)حضرت عبد الر حمن بن ابی ذو یب رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :" کہ میں جمعہ کے دن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ با ہر نکلا تو آپ نے جمعہ کے وقت چا ر رکعت ادا کیں ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :2/105) ان تما م روایا ت کا حا صل یہ ہے کہ اگر کسی کا جمعہ رہ جا ئے تو جن لوگو ں پر جمعہ فر ض نہیں ہے مثلا ً:مسا فر عورت وغیرہ تو انہیں نماز ظہر ادا کر نا ہو گی، چنانچہ علا مہ صنعا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :" بلکہ ظہر اصل ہے جو شب معرا ج میں فرض ہو ئی تھی اور جمعہ کی فرضیت اس کے بعد ہو ئی ہے، اگر جمعہ فو ت ہو جا ئے تو نما ز ظہر کی ادا ئیگی ضروری ہے، اس پر اجماع ہے کیو ں کہ جمعہ نما ز ظہر کا بد ل ہے ۔( سبل السلام :2/53) بعض دیگر روایا ت بھی اس مو قف کے لیے بطو ر دلیل پیش کی جا سکتی ہیں لیکن خو ف طو ا لت کے پیش نظر ہم اس پر اکتفا کر تے ہیں۔ وا ضح رہے کہ علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ سوال۔ علی پو ر سے محمد صا دق سوال کر تے ہیں کہ بعض حضرات عید کی را ت خصوصی عبا د ت کا اہتمام کر تے ہیں اور اس کی فضیلت میں ایک حدیث کا حوا لہ دیتے ہیں کہ اس رات عبا د ت کر نے سے قیا مت کے دن دل مردہ نہیں ہو ں گے اس کے متعلق وضا حت در کا ر ہے ؟ جوا ب۔عید ین کی را ت خصوصی عبا دت کا اہتمام صحیح حدیث سے ثابت نہیں، ویسے اگر کو ئی پا بند ی سے تہجد گزا ر ہے تو حسب عا دت اس رات نو افل ادا کر نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے، سوال میں جس حدیث کا حو الہ دیا گیا ہے اس کا مکمل ترجمہ یہ ہے: جو شخص عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رات عبا دت کر تا ہے ،اس کا دل اس دن بھی مردہ نہیں ہو گا جس دن تمام دل مردہ ہو جا ئیں
Flag Counter