Maktaba Wahhabi

409 - 495
رہنے کا کہا تو خا موشی کی تلقین کر نے والے نے خو د ایک لغو اور بے ہودہ فعل کا ارتکا ب کیا ہے۔ اس سے اندا ز ہ لگا یا جا سکتا ہے کہ جب خا مو ش کرا نے والے کے متعلق اس قدر شدید و عید ہے تو مصرو ف گفتگو رہنے والا کس قدر سنگین جر م کا مر تکب ہو رہا ہے۔ اس بنا پر دورا ن خطبہ سا معین اور حاضرین کو صر ف خطبہ کی طرف تو جہ رکھنا چا ہیے۔ چند ہ وغیرہ اکٹھا کر نا سا معین کی تو جہ کو منتشر کر نے کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے یہ حر کت بھی دورا ن خطبہ نہیں کر نا چا ہیے، البتہ اگر کو ئی ہنگا می ضرورت آپڑی ہے تو امام کو چا ہیے کہ وہ خو د اس کا اعلا ن کر ے اور حا ضر ین کو تر غیب دے لیکن اس کے لیے بھی حا ضرین کو نام بنا م آواز دینے، پھر سا معین کی گرد نیں پھلانگ کر فو راً چند ہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ نماز سے فراغت کے بعد اطمینان اور سکو ن سے حسب استطاعت اس کا ر خیر میں حصہ ڈا لا جا سکتا ہے۔ صورت مسئولہ میں جس طرح سوا ل اٹھا یا گیا ہے اگر واقعی چندہ جمع کر نے کی یہی صورت ہے تو ایسا کر نا مسجد کے تقد س اور احترا م و و قار کے بہت منا فی ہے کہ انسا ن جھو لی پھیلا کر لو گو ں کے سا منے آئے اور مسجد کے لیے چندہ جمع کر ے ۔اہل مسجد کو چا ہیے کہ مسجد کی ضروریا ت کو پو را کر نے کے لیے کو ئی اور با عز ت طریقہ اپنا ئیں۔ یا درہے کہ امام کے منبر پر کھڑا ہو نے سے لے کر نماز کے لیے کھڑا ہو نے تک سب خطبہ ہی شما ر ہو تا ہے۔ یہ وضا حت اس لیے ضروری ہے کہ بعض مقا مات پر دو نو ں خطبو ں کے در میا ن وقفہ لمبا کر کے یہ فریضہ سر انجا م دیا جاتا ہے لہذا اس سے بھی اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔ سوال۔دو بئی سے محمد زبیر سلفی سوال کر تے ہیں کہ اگر کو ئی شخص بیما ری یا کسی اور وجہ سے جمعہ کی نما ز با جما عت ادا نہ کر سکے تو اسے کو ن سی نما ز پڑھنا ہو گی جمعہ کی دو رکعت یا ظہر کی چا ر رکعا ت ؟ جواب۔اس سوال کا جوا ب پہلے بھی" اہل حدیث " میں لکھا جا چکا ہے، اب قدرے تفصیل سے اس کا جو اب پیش خدمت ہے، علماء ئے امت کے درمیا ن اس مسئلہ کے متعلق کچھ اختلا ف ہے کہ جمعہ فو ت ہو جا نے پر دو رکعت پڑھنا ہیں یا چا ر رکعا ت ادا کر نا ہیں، اس اختلا ف کی بنیا د یہ ہے کہ جمعہ بذا ت خو د اصل ہےیا ظہر اصل اور جمعہ اس کا بدل ہے۔ جو حضرات جمعہ ہی کو اصل قرار دیتے ہیں ان کے نز دیک جمعہ فو ت ہو جا نے پر دو رکعت ہی ادا کرنا ہو گی ۔ اور جن حضرات کے نز دیک نما ز ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے ان کے نز دیک اگر جمعہ فو ت ہو جا ئے تو ظہر کی چا ر رکعات ادا کر نا ہو ں گی کیو ں کہ اگر بد ل نہیں مل سکا تو اصل کو عمل میں لا نا چاہیے۔ ہما را رجحا ن بھی اسی طرف ہے کہ نماز ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بد ل ہے۔ اگر کو ئی جمعہ کی نما ز پڑھ سکے تو اسے نما ز ظہر ادا کرنا چا ہیے، اس کے دلا ئل حسب ذیل ہیں : (1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم جمعہ کے دن دوران سفر نما ز ظہر ہی ادا کر تے تھے لیکن سفر کی وجہ سے ظہر کی چا ر رکعت ادا کر نےکی بجا ئے دو رکعت پڑھتے۔ اگر جمعہ اصل ہو تا تو دورا ن سفر اس کا ضرور اہتما م کر تے ۔ہما ر ے اس مو قف کی تا ئید ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو جمعہ فو ت ہو نے پر دو رکعت ادا کر نے وا لو ں کی طرف سے بطو ر دلیل بھی پیش کیا جا تا ہے۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یو ں ہے حضرت مو سیٰ بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ جو بصرہ کے رہنے والے ہیں حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے سوال کر تے ہیں کہ اگر وا دی بطحا میں مجھ سے جمعہ فو ت ہو جائے تو میں کتنی رکعت ادا کرو ں؟ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے فر ما یا کہ دو رکعت ادا کرو ،ایسا کر نا ابو القا سم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ (ذکر اخبا ر اصفہا ن :2/200)
Flag Counter