Maktaba Wahhabi

399 - 495
بارے کچھ علم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرچکا ہے۔کہ جس روز سے اس کی خبر بندہوئی چار برس عورت اس کا انتظار کرے۔اور چار برس پورنے ہونے کے بعد چار ماہ دس دن اپنی بیوگی کی عدت گزار کرچاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔''(موطا امام مالک) صحیح بخاری میں جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ وہ عورت گمشدگی کے ایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔اور حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسی مدت کے قائل ہیں۔ '' کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان دغا میں گم ہوجائے تو اس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتظار کرے۔''(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 23) '' کہ حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی، پھر لونڈی کا مالک ہوگیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ایک برس انتظا رکیا۔(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 22) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔اور موجودہ ظروف احوال کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے۔اب چونکہ ذرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہوچکا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک برس کاانتظار بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کافتویٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جس میں آج کی طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات، یعنی اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتیں ہرگز میسر نہ تھیں۔لہذا اب اس دور میں ایک سال کاانتظار کافی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ پرانا فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علماءئے اسلام اور مفتیان کرام کے نزدیک بہرحال دائر اور رائج چلا آرہا ہے۔ سوال۔ہمارے گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں۔ایسے حالات میں مجھے شرعا ً اجازت ہےکہ میں گھریلو اخراجات کے لئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں۔(ایک خاتون۔۔۔ملتان) جواب۔نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے۔ اور تنگ دست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔''(65/اطلاق :7) اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی تلقین فرمائی ہے۔حدیث میں ہے:'' بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے ذمے ہیں۔''(صحیح مسلم :الحج 2950) ان اخراجات میں کھانا، پینا، علاج ،رہائش اور لباس وغیرہ شامل ہے، خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات کو پورا کرے۔اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیو ی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کرسکتی ہے۔جیسا کہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان گھریلو اخراجات پورے طور پر ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہےکہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛'' ہاں! اس کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقے کے مطابق تیری اور تیری اولاد کی
Flag Counter