Maktaba Wahhabi

398 - 495
چاہیے۔مبالغہ آمیزی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمارے اس دور میں تو اس کے متعلق بہت اسراف کیا جاتا ہےجس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ لوگ فخرومباہات کرتے ہیں حتیٰ کہ غریب آدمی اپنا مکان فروخت کرتا ہے۔بعض دفعہ قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ایسا کرنا بالکل حرام ہے۔(الفتح الربانی :16/177) علامہ ساعاتی نے ان قباحتوں کا ذکرکیا ہے جو ہمارے معاشرے میں در آئی ہیں۔اس سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جہیز دینے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ مندرجہ ذیل باتوں کاخیال رکھا جائے۔ 1۔اسے شادی کا جزو خیال نہ کیا جائےکہ اس کے بغیر شادی نامکمل رہتی ہو۔ 2۔لڑکے والوں کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ نہ ہو خودوالد اپنی خوشی سے جو دینا چاہے دےدے۔ 3۔خود والد بھی حسب استطاعت دے، ایسا نہ ہوکہ بچی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے زندگی بھر قرض کے نیچے دبارہے۔ 4۔ جو کچھ دینا چاہے نہایت سادگی سے خاموشی سے دے دیا جائے، اسے شہرت نمود ونمائش اور فخر ومباہات کاذریعہ نہ بنایا جائے۔ 5۔اس سلسلے میں عدل وانصاف سے کام لیا جائے۔ باقی بچوں اور بچیوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ 6۔سامان جہیز کے عوض بچی کو قطعی طور سے وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔ 7۔کوئی ناجائز چیز یا جس کا استعمال ناجائز ہوا اسے جہیز میں نہ دیا جائے۔ مثلا ٹی وی اور وی سی آر و غیرہ ،باالفاظ دیگر فضولیات کے بجائے صرف ضروریات کا خیال رکھا جائے۔یہ بات جو مشہور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ فروخت کرکے سامان جہیز خریدا گیا تھا ،اس کے متعلق کوئی حوالہ ہمارے علم میں نہیں ہے۔اگر ایسا ہوا ہے تو کوئی حرج والی بات نہیں ہے کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر کفالت تھے۔ نیز روایات میں تفصیل کے لئے ابوداؤد، نسائی اور مسند امام احمد کودیکھا جاسکتا ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔ایک عورت جس کا خاوند گم ہوجائے، وہ کتنی دیر تک اس کا انتظار کرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں۔(سائل :عبد الجبار چک نمبر 493 گ ۔ب ،تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد) جواب۔بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کے زندہ ہونے یا فوت ہونے کا پتہ نہ چل سکے۔نہ اس کے ددھیال کے کسی مرد اور عورت کو اس کی زندگی یاموت کا علم ہو اور اس کے سسرال ،دوستوں اور جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مشہورقول کے مطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کا انتظار کرے ۔چار برس اس کے انتظار کے لئے ہیں۔اس مدت کے گزر جانے پر اس کو فوت شدہ قرار دیا جائےگا۔ اور پھر چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت منظو ر ہوگی، ازاں بعد وہ بی بی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آزاد ہوگی، جیسا کہ سبل السلام میں ہے: ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؛جس عورت کا شوہر گم ہوجائے، دو چار برس تک انتظار کرے۔جب چار برس پورے ہوجائیں( تو گویا وہ فوت ہوچکا ہے اور اس کی بیوی بیوہ قرار پائی)، لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے، اس کے بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کرسکتی ہے۔''(سبل السلام ،ج2) ''جناب سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جونہی عورت کاشوہر گم ہوجائے اور اس کے
Flag Counter