اس کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر تحریک منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کولوگوں میں عام کردیا جائے یا ایسے آلات وادویات کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچادیا جائے جن سے مرد اور عورتیں جنسی بے راہ روی سے باہم لذت اندوز ہوتے رہیں مگر استقرار حمل کا اندیشہ نہ ہو ،جیسا کہ گلی کوچوں میں اس کے سینٹر کھولے جارہے ہیں تو اس کا انجام کثرت سے بے حیائی اور اخلاقی تباہی کی صورت میں رو نما ہوگا۔جیسا کہ اب وہ ممالک اس کے انجام بد سے چیخ رہے ہیں جن میں اس کا تجربہ کیاگیا تھا۔ لہذا ایک خود دار اور باغیرت مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس بے دینی اور بے حیائی پر مبنی تحریک کو سہارا دے ،اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔(آمین) سوال۔ابو بکر صدیق نیازی میا نوالی سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز دینے کا عام رواج ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔کچھ لوگ اسے لعنت قرا ر دیتے ہیں۔اگرجائز ہے تو کس حد تک اس کی اجازت ہے۔قرآن وحدیث کی رو سے وضاحت کریں۔ جواب۔واضح رہے کہ لڑکی کو جہیز دینے کے سلسلے میں ہم افراط وتفریط کا شکار ہیں۔حالانکہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ جس میں انتہا پسندی درست نہیں ہے۔البتہ یہ ایک فطری بات ہےکہ جب والداپنی لخت جگر کو شادی کے موقع پر گھر سے رخصت کرتا ہے تو حسب استطاعت کچھ سامان دینا دونوں کے لئے باعث فرحت وانبساط ہے۔ محدثین کرام نے اس مسئلہ کو اپنی کتب حدیث میں بیان فرمایا ہے۔چنانچہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں۔ ''باب جهاز الرحل ابنته '' باپ کی طرف سے بیٹی کوجہیز دینے کا بیان۔پھر حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو چادر، مشکیزہ اورا یک تکیہ جس میں روئی کی بجائے اذخر گھاس بھر ی ہوئی تھی،بطور جہیز دیا۔(کتاب النکاح) اس وقت آپ نے جو سامان دیا اس کے لئے لفظ ''جھز'' استعمال کیا۔ مسند ا مام احمد میں مذکور ہےکہ سامان کے ساتھ چکی اور دو مٹکوں کا بھی ذکر ہے۔(مسند امام احمد :1/104) اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اپنے حبالہ عقد میں لیا تو وہ حبشہ میں تھیں حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح پڑھایا، پھر چار ہزار درہم اپنی طرف سے بطور حق مہر دیا، اس کے ساتھ اپنی گرہ سے جہیز کا بھی بندوبست کیا ،حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ''ثم جهزها من عنده.....وجهازها كله من عند النجاشي، ولم يرسل اليها رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بشیء ''(مسند امام احمد :4/427) ''حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا جہیز حضرت نجاشی کی طرف سے تھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔'' مسند امام احمد کی ان احادیث پر احمد بن عبد الرحمٰن البنا الساعاتی بایں الفاظ عنوان قائم کرتے ہیں:''باب ماجاء في الجهاز ''جہیز دینے کا بیان'' احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ''ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہیز کے متعلق میانہ روی اختیار کی جائے، صرف ضروریات کے پیش نظر اس کا اہتمام ہونا |