کرتے تھے۔ اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا۔(مسلم :کتاب النکاح ،باب حکم العزل) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف جوابات دیئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہیں: ( اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا:'' کیا تم ایسا کرتے ہو ؟قیامت تک جو بچے پیدا ہونے ہیں وہ تو پیدا ہوکر رہیں گے۔''(صحیح بخاری ،کتاب النکاح، باب العزل) ( اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم کتاب النکاح) راوی کہتا ہے کہ ''لا عليكم '' کے الفاظ نہی کے زیادہ قریب ہیں، ایک دوسرا راوی کہتا ہے کہ اس انداز گفتگو کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کے ارتکاب سے ڈانٹا ہے۔ ( تم ایسا کیوں کرتے ہو؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب حکم العزل) ( تم چاہو تو عزل کرلو مگر جو اولاد تقدیر میں لکھی ہے وہ تو ہوکر رہے گی۔(مسند امام احمد :/312) ان روایات کے پیش نظر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے مکروہ خیال کرتے تھے۔(ترمذی کتاب النکاح باب ماجاء فی کراہیۃ العزل) حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی عزل کواچھا نہیں خیال کرتے تھے۔(موطا امام مالک : کتاب الطلاق باب ماجاء فی العزل) ان مختلف جوابات میں سے کسی ایک جواب کو چھانٹ کر اس پر تحریک ضبط تولید کی بنیاد رکھنا عقل مندی نہیں ۔زیادہ سے زیادہ اسے انفرادی طور پر کسی مجبوری کے پیش نظر ضبط ولادت کے لئے دلیل بنایاجاسکتا ہے۔ ایک عمومی تحریک جاری کردینے کا جواز اس سے ثابت نہیں ہوتا، ہمارے نزدیک موجودہ تحریک اور عزل میں کئی طرح سے فرق کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔اپنے مخصوص حالات کی بنا پر عزل کرنا بیوی خاوند کا ایک انفرادی معاملہ ہے۔ مثلا ً حمل ٹھہرنے سے عورت کی جان کو خطرہ ہویا اس کی صحت کو غیر معمولی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں اگر کسی ماہر ایمان دار ڈاکٹر کے مشورہ سے ضبط ولادت کے لئے عزل یا کوئی اور جدید طریقہ اپنا لیا جائے تو جائز ہے۔اور یہ بیوی خاوند کا اپنا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے لیکن ایک قومی پالیسی کے طور پر ان کے حقوق پر شبخون مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ بطور فیشن اسے عمل میں لانے کی گنجائش ہے۔ ( عزل پر عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی نہیں بلکہ متصور ہے۔ جیسا کہ ایک واقعہ سے ظاہر ہے۔ احتیاط کے باوجود حمل ٹھہر گیا تھا لیکن منصوبہ بندی کا جو طریق کار ہے اس سے عمل کرنے سے حمل کا نہ ہونا یقینی ہے۔لہذا عزل کو منصوبہ بندی کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرنا یا اس پر قیاس کرنا قیا س مع الفارق ہے۔ 3۔جس عورت سے عزل کیا گیا ہو اگر اس کا خاوند فوت ہوجائے یا اسے طلاق مل جائے تو طلب اولاد کے لئے اس سے شادی کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جبکہ بعض حالات میں منصوبہ بندی پر عمل کرنے والی عورت کے لئے یہ مشکل پیش آسکتی ہےکہ اگر اس نے ہمیشہ کے لئے اولاد نہ ہونے والی ادویات یا آلات استعمال کئے ہیں تو اس سے اولاد کا طلب گار کیونکر شادی کرے گا۔ |