ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہےجس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔''(11/ہود:6) انسان کاصرف اتنا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ خزانوں سے اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے محنت کرے اور یہ تحریک اس لئے بھی مزاج اسلام کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ کی سلامتی سے بڑھ کر اور کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتا ہے کہ بے شمار دشمنوں میں گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمان ہر وقت خطرے میں پڑے رہیں۔ اسی لئے وہ مسلمانوں کو اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لئے بطور خاص حکم دیتاہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:'' کہ تم نکاح کے لئے ایسی عورتوں کا انتخاب کرو جو زیادہ محبت کرنے کے ساتھ ساتھ بچے زیادہ جننے والی ہوں ۔قیامت کے دن کثرت امت کی بنا پر تمام انبیاء سے بڑھ کر میں ہوں گا۔''(صحیح ابن حبان7/136) اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ مجردانہ زندگی بسر کرنے سے سخت منع فرمایا ہے۔(مسندامام احمد :3/158) اللہ تعالیٰ نے مرد کو کاشت کار اور عورت کوکھیتی کی حیثیت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔''(3/البقرہ 223) کوئی بھی دانشمند اپنی کھیتی کو برباد نہیں کرتا بلکہ اس سے پیداوار لینے کے لئے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن منصوبہ بندی کی تحریک کامقصداس کھیتی کو بنجر اور بے کار کرنا ہے۔ تحریک تحدید نسل کے حامی اسے مشرف با اسلام کرنے کے لئے عزل کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ سوال میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ عزل کا پس منظر ضبط ولادت کے متعلق کوئی عمومی تحریک برپا کرنا نہ تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں بعض افراد نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر دریافت کیا تھا کہ ان حالات میں ایک مسلمان کے لئے عزل کرنا جائز ہے یا نہیں۔لہذا ضروری ہے کہ اس کے متعلق کچھ تفصیل سے ذکر کردیا جائے۔ دور جاہلیت میں اندیشہ مفلسی اور حد سے بڑھے ہوئے جذبہ غیرت کے پیش نظر ضبط ولادت کے لئے قتل کا طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آتے ہی اس ظالمانہ طریقہ کو سختی سے روک دیا ،مسلمانوں میں چند مخصوص حالات کے پیش نظر عزل کا رجحان پیدا ہوا جس کی درج ذیل وجوہات تھیں: 1۔آزاد عورت سے اس لئے عزل کیاجاتاہےکہ ان کے نزدیک استقرار حمل سے شیر خوار بچے کو نقصان پہنچے کا اندیشہ تھا۔ 2۔لونڈی سے اس لئے عزل کیاجاتاہےکہ اس سے اولاد نہ ہو کیوں کہ ایسے حالات میں اسے فروخت نہیں کیا جاسکےگا بلکہ اسے اپنے پاس رکھناہوگا۔ چونکہ ابتدا میں عزل کے عدم جوازکے متعلق کتاب وسنت میں کوئی صراحت نہ تھی،اس بنا پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظرعزل کی ضرورت محسوس کی اور اس پر عمل کیا، جیسا کہ حضرت ابن عباس ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم کے متعلق روایات میں آیا ہے۔(مؤطا امام مالک: کتاب الطلاق، باب ماجاء فی العزل) بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے سکوت فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو رضا پر محمول کرتے ہوئے اس پر عمل کیاگیا، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عزل |