سوال۔علی پور سے فرزانہ پوچھتی ہیں کہ کسی مجبوری کی وجہ سے مانع حمل ادویات استعمال کرنا شرعا کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جواب۔مانع حمل ادویات استعمال کرنے کی دو اقسام ہیں: (الف) ہمیشہ کے لئے مکمل طور پر رحم کو حمل کے قابل نہ رہنے دینا ،ایسا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔اس کی دووجوہات ہیں: ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصو د کے خلاف حرکت کرنا ہے۔ کیونکہ آپ کا مقصود ہے کہ امت اسلامیہ کثرت سے ہو تاکہ قیامت کے دن امت کی کثرت آپ کے لئے سرفرازی اور فخر کا باعث ہو۔ مستقل طور پر رحم کو ادویات سے ناکارہ کردینا پیغمبرانہ مشن کے خلاف ہے۔ لہذا ایسا کرنا جائز نہیں۔ ( ممکن ہے کہ کسی ناگہانی بیماری سے پہلی اولاد فوت ہوجائے، اگرآئندہ اولاد نہ ہونے کا بندوبست کرلیاہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے بے اولاد رہے گی۔اس سے بڑھ کر شو مئی قسمت کیا ہوسکتی ہے؟ (ب) عارضی طور پر کسی بیماری کی وجہ سے رحم میں بندش کردینا اس کے لئے تین شرائط ہیں: 1۔دیانت دار، تجربہ کار ڈاکٹر کی ہدایت ہو کہ آئندہ حمل عورت کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے یا اس کا حمل کسی مہلک بیماری کاباعث بن سکتا ہے۔ 2۔خاوند سے اجازت لی جائے کیوں کہ حصول اولاد خاوند کا حق ہے۔ اس لئے اس سے اجازت لینا بھی ضروری ہے۔ 3۔ادویات کے استعمال سے اسے کسی قسم کے نقصان یاضرر کا اندیشہ نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' خود بخود تم اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مٹ پڑو۔''(2البقرہ:195) اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر عورتوں سے عزل کرلیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع نہیں فرماتے تھے۔ لیکن آدمی کے ایک پرائیویٹ معاملے کو بنیاد بنا کر قطع نسل کی قومی سطح پر تحریک چلانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔لہذا کسی تجربہ کار دیانت دار ڈاکٹر کی ر پورٹ کے مطابق اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر وقتی طور پر مانع حمل ادویات استعمال کی جاسکتی ہیں۔لیکن ایسی ادویات جن کے استعمال سے رحم ہمیشہ کے لئے اولاد کے قابل نہ رہے ،کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔بہاول پور سے خادم حسین لکھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کے متعلق آج کل بہت پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔اس سلسلہ میں عزل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔اس کے متعلق بھی صحیح موقف کی نشاندہی کریں۔ جواب۔بشرط صحت سوال واضح ہوکہ تحریک ضبط ولادت کی بنیاد روز اول ہی سے قوانین فطرت سے تصادم اور احکام شریعت سے بغاوت پر رکھی گئی ہے۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں یہ سوچ کارفرما ہے کہ زمین کے ذریعہ پیداوار اور وسائل معاش انتہائی محدود ہیں۔اور اس کے مقابلے میں شرح پیدائش غیر محدود ہے۔لہذا اس''بحران'' پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ بچے کم سے کم پیدا کیے جائیں تاکہ معیار زندگی پست ہونے کی بجائے بلند ہو، لیکن قرآن کریم سرے سے اس انداز فکر کو غلط قرار دیتا ہےاور بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہےکہ رزق دینا اس کی ذمہ داری ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ رازق بھی ہے۔ |