Maktaba Wahhabi

393 - 495
حضانت میں دے دیا کہ ماں غیر اخلاقی زندگی بسر کررہی ہےاوراپنے لئے ایسے ماحول کاانتخاب کرلیا ہے جس میں رہ کر نابالغ بچے مستقل طور پر ایسے اثر میں رہیں گے جو ان کی اخلاقی عادات اور روحانی اقدار کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ صورت مذکورہ میں بھی باپ اس قسم کے حالات سے دو چار ہےکہ اس کی بچی اپنی ماں کے زیر اثر رہ کر اخلاقی گرواٹ کا شکار ہوسکتی ہے۔اگرواقعی حالات ایسے ہیں جن کاسوال میں ذکر کیا گیا ہے تو ماں کو حق پرورش سے محروم کرکے پانچ سالہ بچی کوباپ کے حوالہ کردیا جائے تاکہ وہ صحیح طور پر اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرسکے۔ سوال۔محمدعمر بذریعہ ای میل لکھتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی جس کے ہمراہ پہلے خاوند سے تین نابالغ بچے بھی تھے۔ان میں ایک جب جوان ہواتو میں نے اپنے اخراجات پر اس کی شادی کردی،اس لڑکے کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جو پیدائشی طور پر یرقان کی مریضہ تھی۔ میں چونکہ لاولد تھا، اس لئے بچے کے والدین کے ساتھ ایک تحریری معاہدے کے تحت ان کی رضا مندی سے اس بیمار بچی کو میں نے لے لیا اور بہترین ڈاکٹروں کی زیر نگرانی تین دن کی بیمار بچی کا قیمتی علاج کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے بچی کو روبہ صحت کردیا ۔دو سال کے بعد بچی کے والدین صرف ایک دن کے لئے اپنے گھر لے گئے، پھر واپس کرنے سے انکار کردیا ۔کیا انہیں شرعی طور پر ایسا کرنے کا حق تھا۔ کیا بچی کی واپسی کا مطا لبہ کرسکتا ہوں؟ جواب۔واضح رہے کہ کسی کے بچے کو اپنا بیٹا بنانا ،ا ور اپنے گھرمیں اس کی پرورش کرنا دور جاہلیت میں بھی رائج تھا۔عرب کے لوگ جس بچے کو متبنیٰ(لے پالک) بنا لیتے اسے بالکل حقیقی اولاد کی طرح سمجھتے اور صلبی اولاد کا درجہ دیتے۔ منہ بولے بیٹے کو وراثت بھی ملتی، اس سے منہ بولی بہن وہی خلا ملا رکھتی تھی جو حقیقی بیٹے اور حقیقی بھائی سے رکھا جاتاہے۔یہ رسم اسلام کے قوانین ستر وحجاب، وراثت اور نکاح وطلاق سے قدم قدم ٹکراتی تھی اور بعض اوقات کئی ایک برائیوں اور بد اخلاقیوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی تھی۔ کیوں کہ اس طرح ایک ایسے شخص کووراثت کاحقدارٹھہرادیا جاتا جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ پھر منہ بولے رشتے میں خواہ جتنا تقدس پیدا کردیا جائے وہ کسی صورت میں بھی حقیقی رشتے کی طرح نہیں ہوسکتا ۔اس مصنوعی رشتے کے تقدس پر اعتماد کرکے جب مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہوتا تو بُرے نتائج پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس لئے اسلام نے لے پالک کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کوباطل قرار دیا ہے اور اس رسم کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ہمارے ہاں اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ بے اولاد انسان اپنے دل بے قرار کو وقتی طور پراطمینان دے لیتا ہے اور لے پالک کے ساتھ تعاون کی بھی کوئی صورت پیدا ہوجاتی ہے ،مثلا اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دی جاتی ہے۔ لیکن اکثر بے اولاد حضرات لے پالک کو بھی اپنی حقیقی اولاد کا ہی درجہ دیتے ہیں ۔ جو اسلام کو گوارا نہیں ہے۔صورت مسئولہ میں سائل لا ولد تھا، اس نے شفقت پدری دینے کے لئے کسی کی بیمار بچی کو ا پنے گھر پالا اور اس کے قیمتی علاج پر اخراجات بھی برداشت کئے ،شاید حقیقی والدین یہ فریضہ سر انجام نہ دے سکتے۔لہذا اس خدمت کی بجا آوری پر شکر وسپاس کا حقدار ہے لیکن شرعی طور پر چونکہ وہ والدین کی بچی تھی اس لئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ اسے لے گئے ہیں۔ والدین اب اس بات کے پابند ہیں کہ بچی کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات پرورش کنندہ کو واپس کریں اوروعدہ خلافی کی اللہ سے معافی مانگیں۔ محبت ویگانگت کی فضا میں اس معاملے کو حل کریں۔
Flag Counter