ہے۔حضانت اور پرورش کے معاملہ میں بچے کی بہبود کو فوقیت حاصل ہے۔اس بات کااشارہ ان احادیث سے ملتا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح ثانی کرنے کے بعد ماں کو حق حضانت سے محروم قرار دیا ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ والدین کے اختلاف کے وقت فیصلہ دیاتھا۔ ''جب تک تو نکاح ثانی نہ کرے اس بچے کی حقدار ہے۔''(مسند احمد:حدیث نمبر22182) کیونکہ عین ممکن ہے کہ شوہر ثانی کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے سابق شوہر کے بچے کی پرورش کا حق صحیح طور پر ادا نہ کرسکے۔اس لئے ضروری ہے کہ حق پرورش کے معاملہ میں بچے کی بہبود وحفاظت کا لحاظ رکھا جائے۔اور حالات کے تقاضے کو نظر انداز نہ کیاجائے۔جہاں تک ممکن ہو ماں کو اولیت دی جائے۔ تاکہ اس کی مامتاکا تحفظ ہو۔ بشرطیکہ وہاں کوئی امر مانع ہو۔ فقہائے اسلام نے حق حضانت کے متعلق قابل قدر مباحث سپرد قلم کئے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فلاح وبہبود سے مراد صرف جسمانی طور پرپرورش وپرداخت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ذہنی نشونما بھی اس میں شامل ہے۔چنانچہ جس مقام پر بچے کی ذہنیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو اور اس کے اخلاق وافعال بگڑنے کا خطرہ ہو ماں کو حق پرور ش نہیں دیا جائے گا۔درمختار میں ہے: دین اسلام سے برگشتہ ہونے والی یافسق وفجور میں مبتلا عورت سے حق حضانت ساقط ہوجاتا ہے۔''(ج2ص688) جسمانی پرورش کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہے ،چنانچہ لکھا ہے کہ:''اگر عورت میں شوق عبادت حد اعتدال سے بڑھا ہوا ہو،اور یہ ''جنونی شوق'' بچے کی صحیح طور پر نشوونما میں رخنہ اندازی کا باعث ہوتو اس قسم کی عورت کو بھی حق حضانت سے محروم کردیا جائے گا۔''(حوالہ مذکورہ) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''اگر ماں کسی غیر محفوظ مقام پررہائش رکھے ہوئے ہے یا اخلاقی گراوٹ کا شکار ہےتو باپ کواپنی اولاد کا حق ہے۔''(فتاویٰ :ج34 ص 131) آگے چل کر مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''اصل اعتبار بچے کی بہبود کا ہے اس بنا پر دونوں میں سے کسی ایک کو مطلق طور پر بچے کی پرورش کاحقدار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔بلکہ نیک ،عادل بہی خواہ اور اپنے فرائض وواجبات کی ادائیگی پر قدرت رکھنے والے کو یہ حق ملنا چاہیے۔اپنی ذمہ داری پوری طرح نہ نبھانے والے کو یہ حق نہیں سونپا جائے گا۔''(فتاویٰ ابن تیمیہ:ج34 ص 132) سید سابق لکھتے ہیں کہ:''اس معاملے میں بچے کی پوری نگہداشت وحفاظت کی قدرت کااعتبار ہوگا۔''(فقہ السنہ :2/298) ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی متعدد فیصلے اسی بنیاد پر صادر کئے ہیں۔چنانچہ کیکاؤس نے ایک فیصلہ میں لکھا ہے: ''اگرچہ ماں اپنے نابالغ بچے کا (قانونی) حق حضانت رکھتی ہے۔لیکن باپ حقیقی ولی ہوتا ہے اور بچے پر نگرانی اور کنٹرول کرنے کا حق رکھتا ہے۔چنانچہ اگر عورت بچے کو ایسی جگہ پرلے جائے جہاں باپ اس پر اپنی نگرانی اور کنٹرول نہیں رکھ سکتا تو ماں حق حضانت کو کھو دیتی ہے۔''(بحوالہ مجموعہ قوانین اسلام :3/898) ہمارے فاضل ججوں کے متعددفیصلے ایسے ہیں جن میں انہوں نے نابالغ بچوں کو اس بنا پر ماں کی حضانت سے نکال کر باپ کی |