Maktaba Wahhabi

391 - 495
معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بیوی خاوند کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے، لیکن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم عام نہیں ہے۔ بلکہ زیادہ دینے یا وصول کرنے سے منع کردیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے خاوند سے طلاق لینے کامطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کیا تو اس کا حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کردے گی۔''ثابت بن قیس کی بیوی نے عرض کی کیوں نہیں بلکہ کچھ زیادہ بھی دوں گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :''زیادہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف اس کا باغ ہی واپس لوٹا دے۔''(دارقطنی :3/355) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کا باغ واپس کردینے کے متعلق کہا تو خاوند کو حکم دیا'' کہ اپنا یہ باغ وصول کرلو اور اس سے زیادہ وصول نہ کرو۔''(ابن ماجہ: طلاق 2056) اگرچہ بعض روایات میں اس عورت کی طرف سے زیادہ دینے کے الفاظ بھی ملتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی طرف سے حق مہر سے زیادہ کو برقرار نہیں رکھا ۔پھر یہ روایت محدثین کرام کے معیار صحت پر بھی پوری نہیں اُترتی، اگر صحیح بھی ہوتو زیادہ دینا عورت کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے۔ آدمی کی طرف سے مطالبے کے پیش نظر ایسا نہیں کیاگیا۔ اس بنا پر خاوند کو چاہیے کہ وہ حق مہر سے زیادہ وصول نہ کرے جو اس نے بیوی کو دیا ہے۔ ویسے بھی حق مہر سے زیادہ وصول کرنا اخلاقی اصولوں کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔عقل سلیم اس کی اجازت نہیں دیتی۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔میں نے اپنی بیوی کوکچھ عرصہ پہلے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کردیا ہے، اب میری پانچ سالہ بچی اس کے پاس ہے۔ چونکہ جہاں میری سابقہ بیوی رہائش رکھے ہوئے ہےوہاں مغربی تہذیب و ثقافت کازیادہ اثر ہے۔اس لئے مجھے اپنی بچی کے عقائد ونظریات اور اعمال واخلاق کےبگڑنے کا اندیشہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بچی کو اپنے پاس رکھوں۔ کیا شریعت کی رو سے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ایسی حالت میں اپنی بچی کو اس کی ماں کے پاس چھوڑنے کی بجائے اسے اپنے پاس رکھوں تاکہ اس کی صحیح تربیت کا بندوبست ہوسکے۔کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ درکا ر ہے۔(سائل عبد الرشید لاہور) جواب۔شریعت اسلامیہ نے بچے کی پرورش وپرداخت کا حقدار ماں کو ٹھہرایا ہے۔ ا س طرح چھوٹے بچوں کی پرورش کرنے کوشرعی اصطلاح میں ''حضانت '' کہاجاتا ہے۔والدہ کا یہ حق حضانت متعدد روایات سے ثابت ہے۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ روانہ ہونے لگے توسید الشھداء حضرت حمزہ کی ایک چھوٹی بیٹی آپ کے پیچھے آنے لگی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کردیا۔بعد میں حضرت علی ، حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہم اس کے متعلق جھگڑنے لگے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ میں اس کی پرورش کا حقدار ہوں۔چونکہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی اس بچی کی خالہ تھی اس لئے آپ نے بچی کے متعلق خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:''الخالۃ بمنز لۃا لام '' (مسند امام احمد :1/115) ''خالہ ماں کے درجے میں ہے'' آپ کے فیصلے کی بنیاد یہ تھی کہ بچے کے حق میں ماں انتہائی مہربان ہوتی ہے۔اورپرورش ونگرانی میں وہ مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ہاں اگر ایسے عوارض پیش آجائیں جن کی وجہ سے بچے کے حق میں ماں کی اس محبت وشفقت کے معدوم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ماں کا حق حضانت ختم ہوجاتا ہے۔کیونکہ اس سے مقصود بچے کی فلاح وبہبود
Flag Counter