گزر اوقات ہوسکے۔یعنی گھر کانظام چل سکے۔''(صحیح بخاری :النفقات 5364) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ''اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدرلے لے جس سے معروف طریقے کے مطابق اہل خانہ کاگزارہ ہوسکے۔''مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے ا س کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے۔لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لئے ہے، فضولیات کے لئے نہیں، نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے تو اس طریقے سے اخراجات پورے نہیں کرنے چاہیے۔کیونکہ بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے۔اس بات کا فیصلہ بیوی خود کرسکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے۔بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعا اجازت ہےجس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہوسکے۔ سوال۔افتخار نامی ایک شخص نے پہلی بیوی کی موجودگی میں عقد ثانی کاارادہ کیا، دوسری بننے والی بیوی نے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط عائد کی، چنانچہ موصوف نے اسے مطمئن کرنے کے لئے پہلی بیوی کے نام طلاق تحریر کرکے دوسری ہونے والی بیوی کے حوالے کردی کہ تم اس تحریر کو خود ہی ارسال کردو۔اس نے اس تحریر کو اپنے پاس رکھا، اس طرح شادی ہوگئی، دوسری طرف اس نے پہلی بیوی سے کہہ دیا کہ اگر تجھے میری طرف سے تحریر ملے تو اسے وصول نہ کرنا یا اسے پھاڑ دینا، اس نکاح جدید کے دو سال تین ماہ بعد پہلی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا جو اس کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھی۔جب دوسری بیوی کو اس کا علم ہوا تو اس نے طلا ق نامہ مع اپنا نکاح نامہ پہلی بیوی کوارسال کردیا ۔جب اس کے والدین کو پتہ چلا تو وہ اپنی بیوی کو افتخار کے گھر سے لے گئے ۔اب اس کا موقف ہے کہ میں نے طلاق نامہ خوشی سے نہیں لکھا تھا بلکہ مجبوری اوردوسری سے نکاح کے لالچ میں تحریر کیا تھا۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ طلاق واقع ہوچکی ہے؟افتخار کااس دوران پہلی بیوی کے پاس رہنا درست تھا۔کیا پہلی بیوی سے رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟کیونکہ اس نے تینوں طلاق بیک وقت تحریر کردی تھیں۔(حافظ عطاءالرحمٰن مریدکے خریداری نمبر 5655) جواب۔صورت مسئولہ میں نکاح ثانی کے وقت دین سے ناواقفیت کی بنا پر کئی ایک غیر شرعی کام ہوئے ہیں۔پہلا تو یہ کسی عورت کا پہلی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرناشرعا درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق واضح طور پر منع کیا ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: '' کہ کوئی عورت نکاح کے وقت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔تاکہ اس کے برتن کو انڈیل کر رکھ دے۔''(صحیح بخاری ؛الشروط 2723) دوسری روایت میں ہے کہ اسے تو وہی کچھ ملے گا جو اس کا مقدر ہے۔(اس لئے مطالبہ طلاق کے بغیر ہی نکاح کرے)(صحیح بخاری ،النکاح 5152) دوسرا غیر شرعی کام یہ ہے کہ خاوند نے ادا کاری کے طور پر طلاق دی ہے۔حالانکہ طلاق کامعاملہ انتہائی نزاکت کا حامل ہے۔ وہ |