Maktaba Wahhabi

388 - 495
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سربراہوں کولکھاتھا کہ جو آدمی اپنی عورتوں سے غائب ہیں انہیں چاہیےکہ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں یا پھر انہیں طلاق دے کر فارغ کردیں۔ طلاق دینے کی صورت میں بھی پہلی مدت کے اخراجات ادا کرنا ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی تھی گویا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااس پر اجماع ہے۔(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد) ان آیات اور احادیث وآثار سے معلوم ہواکہ تنگ دست یا دانستہ خرچ نہ کرنے والے کی بیوی اخراجات کی عدم ادائیگی پر نسخ نکاح کامطالبہ کرسکتی ہے۔اور اس میں وہ حق بجانب ہے۔لیکن اس کا طریقہ کار یہ ہو کہ حاکم وقت کے ہاں استغاثہ دائر کرے، وہ حالات کا جائزہ لے کر فسخ نکاح کافیصلہ کرے گا۔پھر عورت عدت گزارے،اس کے بعد آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ صرف فتویٰ کو بنیاد بنا کر نکاح نہیں کیا جاسکتا ۔فتویٰ کسی کاحق ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن وہ حق کسی سے لے کر دوسرے کے حوالے کرنا عدالت کا کام ہے۔لہذا عدالت کے حضور درخواست دے کراس کے متعلق فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال ۔اقبال نگر سے محمد سلیم سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے فیملی کورٹ میں اپنے خاوند کے خلاف تنسیخ نکاح کادعویٰ دائر کیا ،اس کے بعد عدالت نے خاوندکو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ،اخبارات میں اس کے متعلق اشتہار بھی دیا۔ لیکن خاوند حاضر نہ ہوا، آخر کارعدالت نے مورخہ 12 جولائی 2002ء کو طلاق کے احکامات جاری کردیئے، یعنی عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا یک طرفہ فیصلہ کردیا،اب عورت نکاح ثانی کے لئے کتنی عدت گزارنے کی پابند ہے؟ جواب۔بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت کے مطالبہ تنسیخ نکاح پر عدالت کا یک طرفہ فیصلہ طلاق خلع کہلاتاہے۔ اور خلع سے نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔ خلع سے چھٹکارا حاصل کرنا بیوی کا حق ہے۔ بشرطیکہ زوجین میں اس قدر شدید منافرت اور ناچاقی پیدا ہوچکی ہو کہ آئندہ اکھٹے رہنے میں وہ احکام الٰہی کی پابندی نہیں کرسکیں گے، کیونکہ بلاوجہ خلع لینے سے بہت سخت وعید احادیث میں آتی ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے''کہ جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا، اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے۔''(جامع الترمذی، کتاب الطلاق) چونکہ صورت مسئولہ میں عدالت نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرتی حالات کے پیش نظرعورت کے حق تنسیخ نکاح کافیصلہ کردیا ہے۔اب نکاح ثانی کے لیے اسے ایک حیض آنے تک انتظار کرنا ہوگا۔ تاکہ رحم کے لئے خالی ہونے کا یقین ہوجائے۔ اس کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔چنانچہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ''خلع یافتہ عورت کی عدت''اس کے تحت وہ ایک حدیث میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خلع یافتہ عورت سے فرمایا کہ وہ ایک حیض آنے تک انتظار کرے۔ (نسائی، کتاب الطلاق ، باب عدۃ المختلعہ) اگرچہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اسےطلاق سے تعبیر کیا ہے لیکن خلع فسخ ہے،طلاق نہیں ۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے طلاق اور خلع کے درمیان فرق کرتے ہوئے لکھا ہے۔'' کہ طلاق میں مرد کو رجوع کرنے کا حق ہوتاہے۔جبکہ خلع میں ایسا نہیں ہوتا ۔دوسرا یہ کہ طلاق کی عدت تین حیض ہے۔جبکہ خلع کی عدت ایک حیض ہے۔جیسا کہ سنت نبوی او ر اقوال صحابہ سے ثابت ہے۔''(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
Flag Counter