Maktaba Wahhabi

387 - 495
میں حاضر ہوکر اپنی صفائی پیش کرتا تاکہ عدالت کو یکطرفہ کاروائی کرنے کاموقع نہ ملتا، اب دو ہی صورتیں ہیں: 1۔اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو صحیح سمجھتے ہوئے وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ 2۔وہ اپنی بیوی کو اپنے گھر بسانا نہیں چاہتا ۔ دونوں صورتوں میں عدالت کافیصلہ صحیح اور نافذ العمل ہے۔عدت گزارنے کے بعد عورت کسی بھی دوسرے آدمی سے نکاح کر سکتی ہے۔یہ اس کاحق ہے جسے شریعت کسی بھی صورت میں پامال نہیں کرنا چاہتی۔مسئلہ کی وضاحت کےساتھ ہم اس تلخ حقیقت کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ بدقسمتی سے ہمارا شریعت سے تعلق صرف ذاتی مفادات کی حد تک ہے۔چنانچہ صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت نے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا، وہ انتہائی قابل نفریں اور باعث لعنت ہے۔ایک غیرت مندآدمی اس بے حیائی کو اپنے گھر کب گوارا کرسکتا ہے۔ ہمارے نزدیک خاوند کا زدو کوب کرنے کے بعد اسے گھر سے نکال دینے کا یہ اقدام اس کی غیر ت کاتقاضا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے آپ پر دیوث ہونے کا دھبہ نہیں لگنے دیا ،جب سر پر مصیبت پڑی ہے تو شریعت کی طرف توجہ کی گئی ہے، حق تو یہ تھاکہ جب خاوند اخراجات پورے نہیں کرتا تھا تو اسی وقت شریعت کی طرف رجوع کیاجاتا یا عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے اپنا حق لیاجاتا لیکن شریعت کو نظر انداز کرکے بدکاری اور بے حیائی کاراستہ اختیار کیاگیا، اس طرح حالات مزید خراب ہوگئے۔اب اس عورت کو سوچنا چاہیے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت کہیں اس پر تو نہیں چسپاں ہورہی:'' بدکار عورتیں بدکارمردوں کے لئے اور فحش کار مرد فحش کار عورتوں کے لئے ہیں۔''(24/النور:26) عورت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور آئندہ ایسا اقدام نہ کرنے کاعزم کرے۔ جس سے اس کی عزت وناموس مجروح ہوتی ہو تاکہ وہ کسی شریف آدمی کے لئے مزید خرابی اور رسوائی کا باعث نہ ہو۔مختصر یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد وہ عدت گزارنے کی پابند ہے، اس کے بعد وہ نکاح ثانی میں آزاد ہے۔ سوال۔عبد الرحمٰن بورے والا سے لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اور کوئی خرچہ وغیرہ بھی نہیں دیتا ۔اس وجہ سے عورت سخت تکلیف میں مبتلا ہے کیا ایسے حالات میں عورت کو فسخ نکاح کی شرعاً اجازت ہے؟ جواب۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے متعلق خاوندوں کو حکم دیا ہے کہ ان بیویوں کےساتھ معاشرت اور رہن سہن میں اچھا برتاؤ کرے۔''(4/النساء :19) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ قول وفعل کے ذریعہ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔بسا اوقات بُرا برتاؤ تعلقات میں کشیدگی، غیروں سے محبت اور نافرمانی وبد اخلاقی کا سبب بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں یہ بھی حکم ہے کہ''اپنی بیویوں کوتکلیف دینے کے لئے مت روکو تاکہ تم حد سے تجاوز کرو۔''(2/البقرہ 231) ان آیات سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور انہیں تکلیف دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عورت کو خرچہ وغیرہ نہ دینا اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہوسکتی ہے۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:'' کہ جو آدمی اپنی بیوی پر اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا ان کے درمیان تفریق کرادی جائے۔''(دارقطنی)
Flag Counter