حدیث میں ہے:'' کہ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں۔''(مسند امام احمد2/414) صورت مسئولہ میں بیوی نے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے عدالتی چارہ جوئی کرکے اپنے حق اختیار کو استعمال کیا ہے اور اس میں حق بجانب معلوم ہوتی ہے۔ عدالت نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرتی حالات کے پیش نظر اس کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے۔سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ عورت نے عدالتی فیصلہ کے فوراً بعد نکاح کرلیاہےیا ایک حیض آنے کے بعد دوسرا نکاح کیا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:''خلع یافتہ عورت کی عدت''اس کے تحت وہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خلع یافتہ عورت سے فرمایاتھا کہ وہ ایک حیض آنے تک انتظار کرے۔(نسائی ،کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعہ) اگر حدیث کے مطابق عمل کیا ہے تو اس مجلس میں نکاح میں شریک ہونے والے مجرم نہیں ہیں۔بصورت دیگر وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس کی اللہ سے معافی مانگنی چاہیے لیکن ایسا کرنے سے ان کے نکاحوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ واضح رہے کہ اگر عورت نے ایک حیض آنے سے پہلے نکاح کرلیا ہے تو ایسا نکاح شرعا ً درست نہیں ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔احمد پورشرقیہ سے ذوالفقار سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کا کسی شخص سے نکاح ہوا، کچھ مدت کےبعد عورت کو پتہ چلا کہ اس کا خاوند ناکارہ، جوئے باز اور فحش کار ہے اور بیوی کے جملہ حقوق پورے کرنے سے بھی قاصر ہے۔عورت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے غیر شرعی دھندا شروع کردیا۔جس کی بنا پر بیوی اور خاوند کا ہمیشہ جھگڑا رہنے لگا ،نوبت باین جارسید کہ ایک دن مذکورہ خاوند نے اپنی بیوی کو مارپیٹ کراپنےگھر سے نکال دیا، چنانچہ وہ اپنے والدین کے ہاں چلی گئی اور والدین نے صلح کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ،بالاخرا س کی بیوی نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے عدالتی چارہ جوئی کی ،عدالت نے یکطرفہ کار روائی کرتے ہوئے عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا، اب دریافت طلب امریہ ہے کہ وہ عورت عدالتی تنسیخ نکاح کے بعد آگے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے؟ جواب۔بشرط صحت سوال واضح ہو کہ ائمہ کرام کا اس کے متعلق اختلاف ہے۔بعض کا خیال ہے کہ عدالت کافیصلہ نافذ العمل ہے۔ جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ عدالت مصالحت تو کراسکتی ہے لیکن طلاق چونکہ خاوند کاحق ہے،اس لئے عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ان کے مابین تنسیخ نکاح کا فیصلہ کرے۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق پہلے حضرات کاموقف صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ شریعت نے خاوند کوعورت کے متعلق معاشرت بالمعروف کا پابند کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:تم ان سے دستور کے مطابق زندگی بسر کرو۔''(4/النساء :19) اخراجات کی ادائیگی اور دیگر حقوق کی بجاآوری بھی خاوند کے ذمہ ہے،جو صورت مسئولہ میں وہ پوری نہیں کررہا ،اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو تکلیف دینے کی غرض سے گھروں میں روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔فرمان الٰہی ہے:'' تم انہیں تکلیف دینے کے لئے مت روکو کہ تم زیادتی کاارتکاب کرو۔''(2/البقرہ :231) ان حالات کے پیش نظر عورت اگر مجبور ہوکر عدالت کادروازہ کھٹکٹاتی ہے تو یہ اس کا حق ہے، خاوند کو چاہیے تھا کہ وہ عدالت |