Maktaba Wahhabi

385 - 495
عورت کا خاوند لاپتہ ہوجائے وہ عدالت کی طرف رجوع کرے، پھر اگر عدالت بعداز ثبوت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی شوہر مفقودالخبر ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عورت کو مزید ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے، ایک سال تک اگرشوہر نہ آئے توعدالت ایک سال کی مدت کے اختتام پر نکاح فسخ کردے گی۔ پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کرکے عدت وفات یعنی چارماہ دس دن گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ واضح رہے کہ ایک سال انتظار کا حکم عدالت اس صورت میں دے گی جب عورت کے پاس اس مدت کے اخراجات موجود ہوں ،بصورت دیگرعدالت بوجہ عدم موجودگی نفقہ فی الفور نکاح فسخ کرسکتی ہے۔اب اگردوران مدت یادوران عدت اس کا خاوند آجائے تو اسے اس کی بیوی مل جائے گی ۔اگر نکاح ثانی کرلینے کے بعد خاوند آیا تو اس بیوی سے محروم ہونا پڑےگا۔ ایسا ہو نا ممکن ہے جیسا کہ چند سال قبل ایک شخص اسلم قریشی کی گمشدگی اور پھر اس کی ڈرامائی انداز میں واپسی ہوئی تھی۔ یہ بھی واضح رہے کہ تفتیش کے اخراجات عورت کے ذمہ ہیں۔بشرطیکہ و ہ صاحب حیثیت ہو،بصورت دیگر بیت المال مصارف تفتیش برداشت کرے گا۔ اگر بیت المال موجود نہ ہوتو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ از خود اس ستم زدہ عورت کے ساتھ تعاون کریں اور تفتیش پر اٹھنے والے اخراجات کابندوبست کریں۔اگرعدالت اس معاملہ کو بلا وجہ طول اور عورت میں مزید صبر کی ہمت نہ ہوتو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کرے اور فیصلہ کرے تو ان کا یہ فیصلہ بھی عدالت کا ہی فیصلہ ہوگا۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ملتان سے احمد دین سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے خاوند سے تنگ ہے اور طلاق چاہتی ہے۔ لیکن خاوند طلاق دینے سے انکاری ہے۔ عورت نےعدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کرکے دوسری جگہ شادی کرلی ہے۔کیا یہ نکاح درست ہے؟اگر درست نہیں تو اس مجلس نکاح میں شرکت کرنے والوں کے لئے کیا حکم ہے؟ جواب۔بیوی اور خاوند میں اگر اس قدر منافرت اور ناچاقی پیدا ہوچکی ہو کہ آئندہ اکھٹے رہنے کی صورت میں وہ احکام الٰہی کی پابندی نہیں کرسکیں گے تو عورت کاخاوند سے چھٹکارا حاصل کرنا خلع کہلاتاہے۔ کیوں کہ بلاوجہ خلع لینے کے بارے میں احادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے:'' کہ جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔''(جامع ترمذی کتاب الطلاق) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بایں الفاظ خلع کے متعلق فرمایا:'' اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کی حدودکوقائم نہیں رکھ سکیں گے۔اس لئے اگر بیوی کچھ مال(شوہرکو) بطور فدیہ دےدے توان دونوں کےلئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔''(2/البقرہ 239) یہ آیت احکام خلع کے متعلق ایک بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ خلع یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کو تھوڑا بہت مال دےکر طلاق دینے پر راضی کرلے کیوں کہ اس کے ساتھ کسی معقول مجبوری کی وجہ سے آئندہ نباہ نہیں ہوسکتا۔ اگر خاوند طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو بذریعہ عدالت طلاق لی جاسکتی ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خاوند اپنی بیوی کو بلاوجہ تنگ نہ کرے تاکہ ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ بیوی تھوڑا بہت مال د ے کر اس سے نجات حاصل کرنے پر مجبور ہوجائے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع اس صورت میں جائز ہے جب عورت کا عذر معقول ہو، بلا وجہ خلع لینے پر سخت ممانعت ہے جیسا کہ حدیث بالا سے واضح ہے، ایک اور
Flag Counter