Maktaba Wahhabi

384 - 495
تک کہ شوہر مفقود کی موت کایقینی علم نہ ہوجائے۔کتب فقہ میں اس کی بایں الفاظ بھی تعبیر کی گئی ہے کہ مفقود کے ہم عمر لوگ جب تک زندہ ہوں اس وقت دوسرے مرد سے اس کانکاح درست نہیں ہے۔ احناف کے مسلک میں یہ روایت بھی ہے کہ ہم عمر لوگوں کی موت کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پر ہے۔جبکہ بعض حضرات نے طبعی عمر کالحاظ رکھتے ہوئے مدت انتظار کاوقت متعین کیا ہے جس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک نوے برس اور بعض کے نزدیک 75 یا 70 برس ہیں۔لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زوجہ مفقود کی مدت انتظار چار سال ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے:'' جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے ،پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر چاہے تو دوسرا نکاح کرے۔''(موطا امام مالک :کتاب الطلاق) ہمارے نزدیک امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صحیح ہے کیوں کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے ،معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں۔لیکن مدت انتظار کا تعین حالات وظروف کے تحت کیا جاسکتا ہے۔موجودہ زمانہ میں ذرائع رسل ورسائل اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور بھی زمانہ قدیم میں محال تھا۔آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ایک دن ملک کے کونے کونے میں پہنچاسکتے ہیں۔بلکہ انٹر نیٹ کےذریعے چند منٹوں میں اس کی تصویر بھی دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچائی جاسکتی ہے۔اس لئے اس مدت کو مزید کم کیاجاسکتا ہے، چنانچہ امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف ہے۔چنانچہ وہ اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:’’مفقود الخبر کے اہل وعیال اور مال ومتاع کے متعلق کیا حکم ہے‘‘ ؟ اس کے تحت لقطہ کی احادیث لائے ہیں کہ اگر کسی کا گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کاسال بھر اعلان کرے، ان احادیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رجحان کاپتہ چلتا ہےکہ زوجہ مفقود کے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیاجاسکتا ہے۔ کیونکہ نکاح کوئی دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائےاور یہ ایک ایسا حق ہے جو مرد کے لئے لازم ہوچکا ہے۔ اس عقدہ نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے۔ لیکن دفع ضرر کی عدالت مرد کے قائم مقام کی حیثیت سے نکاح فسخ کرسکتی ہے، جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے، اس لئے گم شدہ خاوند سےخلاصی کے لئے یہ طریقہ اختیار کیاجائے کہ عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، ا س سے قبل جتنی مدت بھی گزر چکی ہوگی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیاجائے گا۔ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے یااس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل نکاح کرلیتی ہیں، ان کایہ اقدام صحیح نہیں ہے۔چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیاگیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقودشوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟ امام مالک نے جواب دیا:'' کہ اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو اس کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا۔''(المدونۃ الکبریٰ :2/93) لہذا مدت انتظار کی ابتدا اس وقت سے کی جائے گی جس وقت حاکم وقت(جج) خود بھی تفتیش کرکے مفقود کے بارے میں مایوس ہوجائے۔ عدالت میں پہنچنے اور اس کی تفتیش سے قبل خواہ کتنی مدت گزرچکی اس کااعتبار نہ ہوگا۔اس بنا پرضروری ہے کہ جس
Flag Counter