وتاریک اورکتنا ہی وحشت ناک کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کاخاوند گھرسے باہر کسی دوسرے مقام پر قتل کردیا گیا اور اس کاگھر انتہائی وحشت ناک مقام پر واقع تھا۔ مزید برآں وہ مکان ان کی ملکیت بھی نہ تھا، ان کی بیوی حضرت فریعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ مجھے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ وہاں عدت کے ایام امن وسکون سے گزارسکوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اپنے گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی ہےیہاں تک کہ عدت کے ایام پورے ہوجائیں۔''(مسنداحمد :6/370) بعض روایات کے الفاظ یہ ہے: ’’ اجلسي في بيتك ‘‘(نسائی) اپنے گھر میں بیٹھی رہو، یعنی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اس حکم نبوی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ البتہ حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ ہے کہ عورت صرف عدت گزارنے کی پابند ہے خواہ کسی جگہ گزارے۔ حدیث میں تو صورت یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں تھی جبکہ خاوند باہر گیا تھا اور وہیں قتل کر دیا گیا۔ صورت مسئولہ میں خاوند اپنے گھر میں فوت ہوا اور اس کی بیوی فوتگی کے وقت گھر میں موجود نہ تھی ، اس کے متعلق حدیث کے الفاظ ’’جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی‘‘ عورت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ وہیں عدت گزارےجہاں اسے وفات کی خبر ملی ،خواہ وہ کسی کے پاس بطور مہمان ہی ٹھہری ہوئی ہے۔اس طرح کی پابندی شریعت کی منشا کے خلاف اور تکلیف مالا یطاق ہے۔بہرحال اس عورت کو اپنے خاوند کے گھر عدت کے ایام گزارنے ہوں گے، البتہ اس حکم سے چند صورتیں مستثنیٰ ہیں: 1۔اگر عورت خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اگر خاوند اسی حالت میں فوت ہوا تواس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ چار ماہ دس دن اسی مقام پر گزارے۔ بلکہ وہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا اس کےساتھ اپنے ایام گزارتی رہے گی۔ 2۔میاں بیوی کرایہ کے مکا ن میں رہائش رکھے ہوئے تھے ۔ خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے ذرائع مسدود ہوگئے یا مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ۔ایسی صورت میں وہاں عدت کے ایام گزارنا اس کی طاقت سے باہر ہے وہ کسی دوسرے مکان میں منتقل ہو کر عدت کے دن گزار سکتی ہے۔ 3۔خاوند کے فوت ہونے کے بعد خاوند کے عزیز واقارب نے اسے اتنا تنگ کیا کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہوگئے۔ایسے حالات میں وہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے پاس منتقل ہوسکتی ہے۔ 4۔غیر ممالک میں جہاں خاوندکی وفات کے بعد عورت کوویزے وغیرہ کامسئلہ ہو وہ اپنے ملک واپس آکرعدت گزارسکتی ہے۔ سوال۔کمالیہ سے قاری عبدالرحیم زاہد لکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند عرصہ پانچ سال سے لاپتہ ہے ۔تلاش بسیار کے باوجود اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا ۔ایسی عورت کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا وہ آگے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیاجائے۔ جواب۔گمشدہ شوہر کو فقہی اصطلاح میں مفقود الخبر کہا جاتا ہے۔ زوجہ مفقود کے نکاح ثانی کے متعلق علماءئے امت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ مفقود کی بیوی اس وقت تک عقد نکاح سے فارغ نہیں ہوسکتی جب |