Maktaba Wahhabi

379 - 495
جدا ہوجائےگی اور اس پر عدت بھی نہیں ہوگی اور طلاق کے بعد فورا آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے، کیونکہ طلاق قبل از رخصتی کا حکم قرآن کریم نے یہی بتایا ہے۔(33/الاحزاب49) 2۔لڑکے کا سرپرست بھی لڑکے کی طرف سے طلاق دے سکتا ہے جبکہ اسے معلوم ہوجائے کہ لڑکی میرے لڑکے کے گھر بسنے والی نہیں ہے، اس صورت میں وہ اپنے لڑکے کے قائم مقام ہوکر طلاق دے سکتا ہے۔جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' کہ خاوند کی طرف سے کوئی دوسرا قائم مقام ہو کر طلاق دے سکتا ہے۔ اور یہ صحیح موقف ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ غلام اور لڑکے کی طلاق بھی صحیح ہے۔ اور ان کے قائم مقام ہو کر ان کے ولی کی بھی صحیح ہے۔ کیونکہ یہ ایک اصولی بات ہے کہ جو عقد کامالک ہوتا ہے وہ نسخ کا بھی مالک ہے۔ غلام اور لڑکے کا نکاح چونکہ ولی کراتے ہیں، اس لئے انھیں طلاق کا بھی اختیار ہے۔(اختیارات 254 کتاب الطلاق) شریعت کی دیگر تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوانے خاوند کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتاہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی روایت ملتی ہے۔(دارقطنی4/65) اس قسم کی ضرورت نابالغ لڑکے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔لہذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ ولی کی طلاق کے بعد عورت کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے،بشرطیکہ عدالت یا پنچایت سے تصدیق کرالی جائے، صرف فتویٰ کو بنیاد بناکر نکاح نہ کیا جائے۔ کیونکہ فتویٰ میں کسی صورت حال سے متعلق شرعی حکم بتایا جاتاہے۔ اس کی تنفیذ عدالت کا کام ہے۔آخر میں ہم دوبارہ کہنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ نکاح ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اسے کھیل اور مذاق کے طور پر نہ لیاجائے، ا س کے جملہ پہلوؤں پر غور کرکے سرانجام دینا چاہیے۔(واللہ اعلم) سوال۔ فیصل آباد سے محمد اکرم لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو تین دفعہ ماں بہن کہہ دیا ہے۔کیا ایسے کلمات کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے۔ تورجوع کی کیا صورت ہوگی ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں میری مشکل حل کرنے میں مدد کریں۔ جواب۔ عرب معاشرہ میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ جب میاں بیوی کا کسی معاملہ میں جھگڑا ہوجاتا تو شوہر غصہ میں آکر کہتا'' تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے'' مطلب یہ ہوتا کہ تجھ سے مباشرت کرنا میرے لئے ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت کروں۔ اسے شریعت کی اصطلاح میں ظہار کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت نادان لوگ بیو ی سے لڑ کر اسے ماں بہن اور بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا اب آدمی اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لئے حرام ہے۔ اس فعل کا نام ظہار ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایسی بات کو ناپسندیدہ اور جھوٹی بات قرار دیا ہے۔ اور کفارہ کےطور پر اس کی کچھ سزا بھی رکھی ہے۔جس کی تفصیل سورۃ مجادلہ میں بیان ہوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کو ایسے کلمات کہنا ایک بہت بڑا گناہ اور حرام فعل ہے۔ اس کا مرتکب سزا کا حق دار ہے۔لیکن جو شخص اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دیتاہے، تشبیہ وغیرہ نہیں دیتا کہ یہ صورت بھی ظہار ہوگی یا نہیں؟اس میں کچھ اختلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہاتھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور غصہ فرمایا: کہ یہ تیری بہن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کرتے ہوئے منع فرمایا۔ (ابوداؤد الطلاق 2210)
Flag Counter