Maktaba Wahhabi

378 - 495
حلالہ کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایسا کرنا بے غیرتی اور بے حیائی ہے۔ سوال۔ضلع خانیوال سے سید محمد علی لکھتے ہیں کہ حالت حمل میں دی ہوئی طلاق کی کیا حیثیت ہے؟ جواب۔دوران حمل میں دی ہوئی طلاقیں نافذ ہوجاتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں جہلا میں یہ بات مشہور ہے کہ حالت حمل میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، قرآن کریم نے دوران حمل دی ہوئی طلاق پر مندرجہ ذیل احکام مرتب فرمائے ہیں۔اگرطلاق واقع نہ ہوتی تو ان احکام کامرتب کرنا چہ معنی دارد ؟احکام یہ ہیں: ( مطلقہ حاملہ کی عدت بیان کی ہے کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔(65/الطلاق:4) ( مطلقہ حاملہ کو اسی جگہ رکھو جہاں تم خود رہتے ہوجیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔(65/الطلاق:6) ( مطلقہ حاملہ پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کاحمل وضع نہ ہوجائے۔(65/الطلاق:6) ( مطلقہ حاملہ اگر بچے کو دودھ پلائے تو بھلے طریقے سے ان کی اجرت انہیں دی جائے۔(65/الطلاق:6) یہ احکام اس صورت میں قابل عمل ہوں گے جب دوران حمل دی ہوئی طلاق کو تسلیم کیا جائے۔ سوال۔قصورسے بشیر احمد لکھتے ہیں کہ ایک لڑکی کا نکاح بعوض دو ایکڑ زمین حق مہر ہوا، لڑکا دوایکڑدینے پر راضی نہیں ہے، اگر رخصتی سے قبل طلاق ہوجائے تو لڑکی حق مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں؟ جواب۔ اگر بوقت نکاح حق مہر کو لڑکے نے بخوشی قبول کیا تھا تو اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ قرآن کریم کا یہی حکم ہے، اس میں لیت ولعل کرنا شرعا درست نہیں ہے۔ حدیث میں ہے:'' کہ تمام شرطوں میں سب سے زیادہ حق دار وہ شرط ہے جس کے ذریعے تم نے اپنی منکوحہ کی شرم گاہ کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔''(صحیح بخاری :کتاب النکاح) مصالحت کی کوشش کرناضروری ہے۔اگر طلاق دیناناگزیر ہوتولڑکی کو آدھاحق مہر ملے گا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''کہ اگر تم نے مساس سے پہلے طلاق دی ہے اور حق مہر کاتعین ہوچکاہے تونصف حق مہر کی ادائیگی تمہارے ذمہ ہے۔''(2/البقرہ :237) سوال۔حبیب رسو ل راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ نابالغ لڑکے سے طلاق لینے کی کیا صورت ہے۔ جبکہ اس کی بیوی بالغ ہے اور وہ طلاق کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔نیز واضح رہے کہ لڑکا بھی نو یا دس سال کا ہے وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں گیا ہے۔ جواب۔والدین کو چاہیے کہ نکاح کے وقت پیش بندی کے طور پر آئندہ ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لے لیا کریں، اس کے بعد نکاح کافریضہ سرانجام دیاجائے۔کیونکہ نکاح ایک ایسا سنجیدہ معاملہ ہے اور زندگی کا بندھن ہے جو ہر روز نہیں کیا جاتا، یہ کوئی ریت کاگھر نہیں ہے جب چاہے بنا لے جب چاہے گرا دے، صورت مسئولہ میں جب بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کی رہائی کی دو صورتیں ہیں: 1۔ لڑکا طلاق دے دے ،بشرطیکہ وہ سن رشد کو پہنچ چکا ہو، اگرچہ بالغ نہ ہو، سوال میں بیان کردہ صورت کے پیش نظر لڑکا نو دس سال کا ہے، لہذا وہ عاقل اور صاحب تمیز ہے۔ اور وہ خود طلاق دینے کا اہل ہے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک طلاق کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ صرف رشد وتمیز کا حاصل ہوناضروری ہے جسے اتنا علم ہو کہ بیوی کس غرض کے لئے ہوتی ہے۔ طلاق کے بعد بیوی
Flag Counter