کی نیت سے وثیقہ نویس کے پاس گیا۔اور اس نے تین طلاقیں لکھ دیں، پھر اسے پڑھ کر سنایا اور اس نے بقائمی ہوش وحواس اسے سنا اور اپنے دستخط یا انگوٹھا ثبت کیا ۔کیا اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینے سے تینوں ہی واقعہ ہوجاتی ہیں یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے طلاق دینے پر نہ صرف اظہار ناراضگی فرمایا ہے بلکہ اسے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔حضرت محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔توآپ یہ سن کرغصے میں آگئے اور فرمایا:'' کہ میری موجودگی میں ہی ان لوگوں نے کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا ہے۔'' ایک جاں نثارنے آپ کی ناراضگی کو دیکھا تو عرض کیا کہ اگر آپ مجھے اجاز ت دیں تو اسے قتل کردوں؟(سنن نسائی:کتاب النکاح) اس کے برعکس اگر کوئی کتاب وسنت کے مطابق طلاق دے تو شریعت نے ایسے شخص کو متعدد مواقع فراہم کیے ہیں تاکہ وہ باعزت طور پر رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آبادکرسکے ۔کتاب وسنت کی روشنی میں ایک ہی مجلس میں تین طلاق ایک رجعی ہوتی ہے۔ اگر یہ پہلا یا دوسرا واقعہ ہےتو دوران عدت خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق ہے۔اور پہلا نکاح بھی برقرار رہے گا۔البتہ عدت گزرنے کے بعد اسی طلاق دہندہ کے ساتھ تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے۔ اس موقف کے حسب ذیل دلائل ہیں۔ 1۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک رجعی ہوتی تھی ۔(صحیح مسلم) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سال کے بعد لوگوں نے اس سہولت سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو آپ نے تادیبی طور پر تین طلاق نافذ کردینے کا حکم فرمایا،لیکن حضرت عمر اپنے آخری دور میں اس فیصلے پر اظہار افسوس فرمایا کرتےتھے۔جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ابوبکر اسماعیلی کی تصنیف ''مسندعمر'' کے حوالہ سے لکھا ہے۔(اغاثہ اللفہان :ج1 ص 336) 2۔ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوایک مجلس میں تین طلاق دے دیں، اس کے بعد انہیں اپنی بیوی کی جدائی کا انتہائی غم ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب معاملہ پہنچا تو آپ نے دریافت فرمایا:'' کہ طلاق کیسے دی تھی۔ عرض کیا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ تو ایک طلاق ہے،اگرچاہو تو رجوع کرلو۔''چنانچہ اس نے رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آباد کرلیا۔(مسند امام احمد :ج 1 ص 665) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:'' یہ حدیث اس مسئلہ( طلاق ثلاثہ) میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تاویل نہیں کی ہوسکتی۔''(فتح الباری :ج9 ص 362) ا ن احادیث کی روشنی میں ایک باغیرت ،کتاب وسنت پر ایمان اور ان پر عمل پیرا ہونے والے کے لئے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں تو اسے رجوع کا حق ہے۔اگرعدت کے ایام پورے نہیں تو دوگواہوں کی موجودگی میں گھر بسانے کی سنت سے رجوع کا حق ہے،اگر عدت کے ایام پورے ہوچکے ہیں تو بیوی کی رضا مندی، اس کے سرپرست کی اجازت، نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید سے رجوع ہوسکے گا۔قرآن وحدیث کا یہ فیصلہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں رائج عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتویٰ دیا جاتا ہے۔اس کے لئے بدنام زمانہ |