2۔انتہائی حالت: یہ وہ حالت ہے جس میں شدت غصہ کی وجہ سے انسان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہتے ،اسے کوئی علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا کیسے کر رہا ہوں۔ اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق نہیں ہوتی۔کیونکہ یہ ایک جنونی کیفیت ہے اور دیوانگی کی ایک صورت ہے اور مجنون اور دیوانہ مرفوع القلم ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے :'' تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیاگیا ہے،ان میں سے ایک مجنون بھی ہے۔''(مسندامام احمد :6/102) 3۔درمیانی حالت: یہ وہ حالت ہے کہ غصہ کی وجہ سے عقل بالکل تو زائل نہیں ہوتی۔تاہم یہ غصہ اس کی قوت فکر پر اس حد تک اثر انداز ضرور ہوتا ہے کہ اس دوران کی ہوئی کوتاہی پر بعد میں نادم ہوتا ہے۔''(زاد المعاد : فصل الطلاق فی الاغلاق) آخری صورت محل اختلاف ہے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ودیگر حنابلہ کے نزدیک اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقعہ نہیں ہوتی۔ان کی دلیل مذکورہ بالاحدیث میں ہے، جبکہ دوسرے ا س درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق کو نافذ خیال کرتے ہیں۔ہمارے نزدیک مؤخر الذکر علماءء کاموقف ہی صحیح ہے۔کیوں کہ طلاق عموماً غصہ میں دی جاتی ہے۔اور درمیانی حالت میں غصہ دیوانگی کی حد تک پہنچتا ہے۔اس حالت میں طلاق دھندہ کو مرفوع القلم قرار دیا جائے۔لہذا اگرغیظ وغضب اس حد تک پہنچ جائے جو انتہائی حالت میں بیان ہوا کہ انسان اپنے آپ سے باہر ہوجائےاور اس کے ہوش وحواس بالکل قائم نہ رہ سکیں ،یہاں تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ میرے منہ سے کیا نکلا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ تو ایسی حالت واقع نہیں ہوگی۔مگر غصے کی یہ انتہائی حالت شاذونادر ہوتی ہے اور ایسا بہت کم ہوتاہے۔ اس تفصیل کے پیش نظر جب صورت مسئولہ کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دھندہ طلاق دیتے وقت انتہائی غصے کی حالت میں تھا۔اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لیکن آیا وہ حقیقتاً ایسا ہی تھا یہ توطلاق دینے والا ہی بہتر جانتا ہے۔لہذا اسے خود سوچنا چاہیے کہ میں طلاق دیتے وقت کس حالت میں تھا ۔حقیقت حال کے خلاف الفاظ تحریر کرکے فتویٰ لے لینے سے حرام شدہ چیز حلال نہیں ہوگی۔حلال وحرام کے معاملہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اگر واقعی طلاق دھندہ نے غصے کی انتہائی حالت میں طلاق دی ہے،اس کے ہوش وحواس قائم نہیں تھے تو اس صورت میں سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔اوراگرغصہ ابتدائی یا درمیانی حالت ہے تواطلاق واقع ہوجائے گی۔بالخصوص جبکہ وہ کئی بار ایسا کرچکا ہے جیسا کہ سوال میں ذکر ہے تو وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بشرطیکہ طلاق دینے کا معاملہ مختلف مواقع میں پیش آیا ہو۔اب عام حالت میں صلح کی کوئی صورت نہیں ہے اور اگر ایک ہی مجلس میں ایسا ہواہے تو ایک طلاق ہوگی اورعدت کے اندر اندر رجوع ہوسکے گا۔اگر دودفعہ ایسا ہوا تو بھی رجوع کاحق باقی ہے۔لیکن تیسری دفعہ ایسا کرنے سے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔منڈی یزمان سے رشید احمد جٹ لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کے ارادہ سے وثیقہ نویس کے پاس گیا اور اسے طلاق نامہ لکھنے کے متعلق کہا ،اس نے طاق نامہ پر تین طلاق لکھ دیں کیا اس طرح طلاق سے رجوع کا امکان باقی رہتاہے یانہیں؟ جواب۔واضح ہو کہ صورت مسئلہ میں شوہر خواندہ ہو یا ناخواندہ نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دینے |