1۔نئے حق مہر کی تعین۔ 2۔دو گواہ موجود ہوں۔ 3۔سرپرست کی اجازت ہو۔ 4۔عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو۔ قرآن وحدیث کا یہی فیصلہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگراسلامی ممالک میں بھی یہی فتویٰ دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ عدت عام حالات میں تین حیض ہیں۔حمل کی صورت میں وضع حمل ۔اس کے علاوہ حیض نہ آنے کی صورت میں قمری تین ماہ ہیں۔اگرنکاح کے بعد ر خصتی عمل میں نہیں آئی تو کوئی عدت نہیں ہے۔ طلاق کے بعد بلاانتظار اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔فیصل آبادسےمحمد اشرف لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے شدید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو کئی بار طلاق کے لفظ کہے لیکن غصے کی بنا پر اسے پتہ نہیں رہا کہ میں کیا کہہ رہاہوں ،البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اس نے کہا'' میں اپنی منکوحہ کو طلاق دیتا ہوں اور کچھ شواہد اس بات پر ہیں کہ اس نے یوں کہا'' میرے گھر سے نکل جا بصوررت دیگر میں طلاق دے دوں گا۔ بہرحال غصہ اس قدر شدید تھا کہ خاوند کو ہوش نہ رہا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور میں کیا کررہا ہوں۔ براہ کرم ہماری اس الجھن کو دور کریں۔ جواب۔بحالت غصہ میں دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے متعلق علماءئے امت کااختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ غصہ میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔کیوں کہ حدیث میں ہے کہ بحالت اغلاق نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ہی غلام کو آزاد ی ملتی ہے۔(سنن ابی داؤدالطلاق 2193) اس حدیث میں آمد ہ لفظ''اغلاق'' کا معنی امام احمد بن حنبل سے غضب منقول ہے۔یعنی بحالت غصہ طلاق دینا اور غلام کو آزاد کرنا شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اغلاق کا یہ معنی کیا، فرماتے ہیں کہ’’الاغلاق اظنه في الغضب‘‘ ابو داؤد كے بعض نسخوں میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’باب الطلاق علی غضب‘‘ یعنی بحالت غصہ طلاق دینے کا بیان۔ان حضرات کے نزدیک غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ جب کہ بعض دوسرے علماءئے کرام کے ہاں بحالت غصہ دی ہوئی طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ رضا ورغبت اور خوشی سے کوئی بھی طلاق نہیں دیتا بلکہ حالات خراب ہونے پر غصہ میں ہی طلاق دی جاتی ہے۔ اگر غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کااعتبار نہ کیاجائے تو کوئی بھی طلاق مؤثر نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہمیشہ طلاق بحالت غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ذرا تفصیل سے گفتگو کی ہے، فرماتے ہیں : کہ غصہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں۔ 1۔ابتدائی حالت: یہ وہ حالت ہے جس میں غصہ تو ہوتا ہےلیکن انسان کے ہوش وحواس قائم رہتے ہیں۔ اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق ہوجاتی ہے۔ |