کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ رجوع نہ ہونے کی صورت میں والدین کی طرف سے اپنی بچی کو جو سازوسامان دیاگیا خاوند سے اس سامان کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے۔کیوں کہ وہ لڑکی کا ذاتی سامان ہے جو اس کے والدین نے اسے استعمال کے لئے دیا تھا ،طلاق کے بعد خاوند کا اس میں کوئی حق نہیں ہے لیکن جو سامان نکاح کے بعد استعمال ہوچکا ہےیا ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اس کا مطالبہ صحیح نہیں ہے ۔اسی طرح سسرال کی طرف سے خاوند کو شادی کے موقع پر جو تحفہ یا ہدیہ دے کر پھر اس کی واپسی کامطالبہ کرنا ایسا ہے جیسے کتا ا پنی قے کو چاٹتاہے۔شریعت نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ ہمارے ہاں ہدیہ دے کرواپسی کامطالبہ کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی بُری مثال نہیں ہے کہ کتاا پنی قے کو چاٹتا ہے۔''(صحیح البخاری :الھبۃ 2622) حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں''کہ ہم قے کو حرام جانتے ہیں۔یعنی ھبہ دے کر واپسی کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔'' مختصر یہ ہے کہ حاملہ عورت کو اگر طلاق دی جائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔دوران عدت نکاح جدید کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے۔ وضع حمل کے بعد عورت کی رضا مندی سے نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرکے رجوع ممکن ہے۔دوران عدت خاوند کو اپنی بیوی کے جملہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے اور بچے کی پیدائش پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے۔شادی کے موقع پر والدین نے جو بچی کو سازوسامان دیا تھا اس کا مطالبہ خاوند سے کیاجاسکتا ہے لیکن اس موقع پر خاوند کو جو تحائف وغیرہ دیئے گئے ہیں ان کی واپسی کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔گوجرانوالہ سے ہارون الرشید سوال کرتے ہیں کہ میرے داماد نے میری بیٹی کوطلاق دی، پھر رجوع کرلیا ،کچھ عرصہ راضی خوش رہے، اس دوران بیٹی کوحمل ٹھہرا تو اس نے پھر طلاق دےدی، ا ورضع حمل سے پہلے رجوع کرلیا ،وضع حمل کے بعد اس نے تیسری طلاق دےدی، اب ہمارے لئے شرعی حکم کیاہے؟ جواب۔بشرط صحت سوال واضح ہوکہ دین اسلام کے بیان کردہ ضابطہ طلاق کے مطابق خاوند کو زندگی بھر تین طلاق دینے کا اختیار ہے، پہلی اور دوسری طلاق کے بعد حق رجوع باقی رہتاہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اگر دوران عدت رجوع کرلیا جائے تو نکاح جدید کی ضرورت نہیں لیکن عدت گزرنے کے بعد نکاح جدید کے بغیر رجوع نہیں ہوسکے گا۔تیسری طلاق کے بعد حق رجوع ختم ہوجاتا ہے۔ارشاد بار ی تعالیٰ ہے:'' پھر اگر شوہر (دودفعہ طلاق دینے کے بعد تیسری)طلاق دےدے تو اس کے بعد جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اس(پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی۔''(2/البقرہ :230) حدیث کےمطابق آیت میں مذکورہ نکاح سے مراد مباشرت ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ نکاح بھی گھر بسانے کی نیت سے کیا جائے کوئی سازشی یا مشروط نکاح نہ ہو۔جیسا کہ ہمارے ہاں بدنام زمانہ ''حلالہ'' کیاجاتا ہے۔کیوں کہ ایسا کرنا حرام اور باعث لعنت ہے۔اس شرعی نکاح کے بعد اگر دوسرا خاوند فوت ہوجائے یاکسی وجہ سے اس عورت کو طلاق ہوجائے توعدت گزارنے کے بعد وہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ صورت مسئولہ میں خاوند نے اپنی بیوی کو وقتاًفوقتاً تین طلاقیں دے دی ہیں۔اب عام حالات میں رجوع ممکن نہیں ہے کیوں کہ تیسری طلاق کے بعد ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ہے۔لڑکی کے باپ کواس کی اطلاع ہوناضروری نہیں کیوں کہ طلاق |