Maktaba Wahhabi

369 - 495
دیناخاوند کا حق ہےجو اس نے استعمال کرلیا ہے۔عورت کا اسے قبول کرنا یا اس کے باپ کو اس کی اطلاع ہوناوقوع طلاق کے لئے ضروری نہیں ہے ۔(واللہ اعلم) سوال۔ساہیوال سے بشیراحمد لکھتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو آباد کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے والد اورسسر نے زبردستی مجھ سے طلاق پر دستخط کروالیےہیں، حالانکہ میں نے طلاق نہیں دی اور نہ ہی طلاق دینے کا اراد ہ ہے۔کیا اس طرح طلاق ہوجاتی ہے؟ جواب۔بشرط صحت سوال واضح ہوکہ صورت مسئولہ میں سائل اس انداز سے دی ہوئی طلاق کو جبری طلاق سمجھتا ہے جیسے فقہی اصطلاح میں '' طلاق المکرہ'' کہا جاتاہے۔اس بنا پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جبرواکراہ کی حدود کو را تفصیل سے بیان کردیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں مذکورہ طلاق کاجائزہ لیاجائے کہ وہ اس ضمن میں آتی ہے یا نہیں؟فقہاء نے اکراہ کی دو اقسام بیان کی ہیں: 1۔اکراہ تام: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس حد تک مجبور ہوجائے کہ اس کی رضا معدوم اور اس کے اختیارات سلب ہوجائیں مثلا اسے یا اس کےکسی عزیز کو قتل یا جسم کے کسی عضو کوبے کار کردینے کی دھمکی یا ایسی مار کی دھمکی دی جائے جس سے جان جانے کا اندیشہ ہو، اس قسم کے اکراہ کی موجودگی میں کیاجانے والا کوئی فعل(خواہ طلاق ہو) اپنے نتائج کے لحاظ سے بے اثر رہے گا۔ 2۔اکراہ ناقص: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی وقت اس حد تک مجبور ہوجائے کہ اس کی رضا تو معدوم ہو لیکن اس کے اختیارات سلب ہونے کے بجائے فاسد اور خراب ہوجائیں مثلا:ایسی دھمکی دی جائے جس سے جان جانے یا جسم کے کسی عضو کے ضائع ہو جانے کاکوئی اندیشہ نہ ہو، مثلاً مار پیٹ یاقید کی دھمکی دی جائے جس سے جان جانے یا جسم کے کسی عضو کے ضائع ہو جانے کاکوئی اندیشہ نہ ہو، مثلاً مارپیٹ یا قید کی دھمکی وغیرہ۔ایسے حالات میں کیاجانے والا فعل نتائج کے لحاظ سے بے اثر نہیں ہوگا۔ اکراہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ مجبور کرنے والاشخص دھمکی کو عملی شکل دینے پر قادر بھی ہو، ا س طرح جس شخص کو مجبور کیا جارہا ہے،اسے بھی یقین ہو کہ دھمکی دینے والا شخص اس فعل کوکر گزرے گا جس کی اس نے دھمکی دی ہے۔ اکراہ کی ان شرائط کی عدم موجودگی میں شرعاً اکراہ ثابت نہیں ہوگا۔صورت مسئولہ میں ''زبردستی'' کا مفہوم اگر یہ ہے کہ سائل کو قتل ہونے کا ڈر تھا یا اسے اپنے کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ تھا ۔اس لئے طلاق نامہ پر دستخط کئے ہیں تو ایسے حالات میں طلاق واقع نہ ہوگی۔بصورت دیگر طلاق واقع ہوچکی ہے۔اگر طلاق رجعی ہے تو دوران عدت رجوع ہوسکتا ہے۔اور عدت گزرنے کے بعد بھی تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے۔ والد یا سسر کا یہ کہہ دینا جبر نہیں ہوگا۔اگر اس کے پس منظر میں کوئی شرعی وجوہ نہیں تو انہیں سمجھایاجاسکتاہے۔ واضح رہے کہ جبرصرف قتل یا عضو کے ضیاع کے اندیشہ سے ثابت ہوتا ہے اس کے علاوہ والد اور سسردونوں ہی عام طور پر بیتے کے خیر خواہ ہوتے ہیں، وہ بیٹے سے جبری طلاق لے کر دوبارہ اس کی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کے قطعاً خواہاں نہیں ہوتے۔لہذا مذکورہ صورت میں طلاق کا نافذ کردینا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔ظفر اقبال بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ ایک شخص ا پنے دوستوں کے سامنے اس طرح کہتا ہے کہ میں جس سے بھی شادی کروں اسے طلاق ہے۔کیا اس طرح طلاق کہنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ جواب۔قرآن پاک کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق اسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ پہلے نکاح ہوچکاہو، نکاح سے پہلے طلاق بے اثر اور لغو ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انہیں ہاتھ
Flag Counter