سے طلاق ہوجائے یا اس کا خاوند فوت ہوجائے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔صورت مسئولہ میں تفریق لعان یامقاربت کے بعد تیسری طلاق سے نہیں ہوئی، لہذا ایسی عورت سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس عورت پر کوئی عدت کی پابندی بھی نہیں ہے۔ سوال۔ٹنڈو آدم سے محمد ایوب ولد مہر دین سوال کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کوطلاق دی ،جبکہ وہ حاملہ تھی، دوران عدت اسے لڑکا پیدا ہوا۔ عدت کے بعد اس عورت نے آگے شادی کرلی، لڑکی نے اپنی ماں کے پاس پرورش پائی ،یہ لڑکا اپنے باپ کی خدمت نہیں کرتا بلکہ مطلب کے لئے اس کے پاس جاتا ہے۔ جبکہ وہ اپنی ماں اوراس کے بطن سے پیدا ہونے والے دوسرے سوتیلے بھائیوں کی خوب دیکھ بھال کرتا ہے کیا اس قسم کا لڑکا باپ کی وراثت کا حقدار ہوسکتا ہے۔ جواب۔ایک مسلمان کے لئے اس کے والدین کا زندہ رہنا بہت بڑی نعمت ہے اور ان کی خدمت کرنا سعادت مندی کی علامت ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔صورت مسئولہ میں اس بات کا شکوہ کیا گیا ہےکہ لڑکا والد کی خدمت نہیں کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ والد نے اپنے بچے کی تربیت وپرداخت کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے۔جو بچہ اپنی ماں کےہاں دوران عدت پیدا ہوا، اور اپنی ماں کے ہاں پروان چڑھا ہو ،جبکہ باپ نے اس کا خیال تک نہ رکھا ہو، کیا ایسے بچے سے والد کی خدمت کے لئے کوئی امید وابستہ کی جاسکتی ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ والد اپنے بچے کی خود تربیت کرتا اور اس کی پرورش کرکے اس کے ہاں اپنی اہمیت واضح کرتا لیکن اسے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا جہاں وہ انتہائی نفرت وحقارت کے ماحول میں پروان چڑھا ہے۔ اب والد کا یہ شکوہ کرنا کہ یہ میری خدمت نہیں کرتا اور صرف مطلب برآری کے لئے آتا ہے،بالکل بے محل ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تقسیم جائیداد کا طریق کار خود اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے، ا س میں کسی مخلوق کی طرف سے کوئی ترمیم واضافہ نہیں ہوسکتا۔وراثت کے محرومی کے اسباب قتل وارتداد وغیرہ ہیں جو صورت مسئولہ میں نہیں پائے جاتے۔لہذا جائیداد سے کسی کو صرف اسی وجہ سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نافرمان ہے یا وہ والد کاخدمت گزار نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ جو مال والدین یا رشتہ دار چھوڑ مریں وہ تھوڑا ہویا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اورعورتوں کابھی یہ حصے (اللہ کے ) مقرر کئے ہوئے ہیں۔''(4/النساء 7) اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو یہ حق ہے۔اخبارات میں جو آئے دن عاق نامے شائع ہوتے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔موجودہ صورت میں جب لڑکا اپنی ماں کے پاس ہی رہتا ہے تو اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد سے اس کا اچھا برتاؤ ماں کی طرف سے اس کی ذہنی تربیت کا نتیجہ ہے اور اس میں شرعا ً کوئی قباحت نہیں ہے۔ والد کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا سا پیار دے تاکہ وہ اس کی خدمت کو اپنے لئے سعادت مند خیال کرے۔ سوال۔پیر محل سے سکندر حیات سوا ل کرتے ہیں کہ ایک عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی، جبکہ وہ حاملہ تھی ،تقریبا ً طلاق کے ڈیڑھ ماہ بعد وضع حمل ہوا ،کیا اب رجوع ممکن ہے؟اگر رجوع ممکن نہیں تو دوران عدت اپنے اخراجات اور بچے کی پیدائش کا خرچہ لے سکتی ہے ؟نیز نوزائیدہ بچے کا ذمہ دار کون ہے جبکہ والدہ اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی، اس کے علاوہ نکاح کےوقت جو |