Maktaba Wahhabi

358 - 495
فرمایا ہے'' کہ ا گر کوئی قسم اٹھائے کہ فلاں کام نہیں کروں گا۔بعد میں پتہ چلا کہ اس سے باز رہنا خلاف شرع ہے۔ تو اسے چاہیے کہ قسم کا کفارہ دے اور وہ کام کرے کہ جس کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی تھی۔''چونکہ منگنی صرف ایک وعدہ ہے قسم نہیں ہے جس کے ختم کرنے پر اسے کوئی کفارہ ادا کرنا پڑے، اسے خلاف شرع سمجھتے ہوئے ختم کردیا گیاہے۔ اس قسم کے خلاف شرع وعدے کرنا بھی شریعت میں درست نہیں ہیں۔ مگر دین سے ناواقف غرض مند لوگ ایسے وعدے کرلیتے ہیں پھر مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ بچیوں کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے ان کے حقوق میں ناجائز تصرف نہ کریں، منگنی کے وقت پانی وغیرہ پلانے کو ر سم نکاح قرار دینا بھی ایک جاہلانہ رسم ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو منگنیاں ہوئیں انہیں نکاح نہیں قراردیا گیا بلکہ منگنی کے بعد باقاعدہ نکاح سے انہیں رشتہ ازدواج میں منسلک کیا گیا ہے۔حضرت جلبیب رضی اللہ عنہ نے پہلے منگنی کی اور بعد میں نکاح ہوا۔(مسند امام احمد) احادیث میں اس حد تک صراحت ہےکہ اگر منگنی کے وقت لفظ نکاح کا بھی استعمال کیاگیا ہےتو بھی اسے منگنی ہی سمجھاجائے کیوں کہ نکاح تو ایجاب وقبول کانام ہے، جو یہاں مفقود ہے۔فریق ثانی کا رد عمل درست نہیں ہے کہ وہ محض ایک رسم کو نکاح قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، ان حقائق کے پیش نظرفتویٰ دیا جاتا ہے کہ منگنی صرف ایک وعدہ ہے جو خلاف شرع ہونے کی صورت میں توڑا بھی جاسکتا ہے۔لہذا اس بچی کا نکاح آگے کیا جاسکتا ہے۔شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔عارف والا سے محمد شفیع لکھتے ہیں کہ دو بھائی جو صاحب اولاد ہیں دونوں کسی سابقہ شرط کےبغیر شرعی طور پر آپس میں اولاد کی شادیاں کرناچاہیں یعنی ایک بھائی دوسرے کو رشتہ دے گا۔ اور دوسر ا بھائی بھی پہلے کو رشتہ دے گا۔ لیکن اس کے لئے پہلے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ دو بھائیوں کا کسی قسم کی سابقہ شرط کے بغیر شرعی طور پرآپس میں اولاد کی شادیاں کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔بلکہ صلح رحمی کی ایک بہترین صورت ہے۔ لیکن عام طور پردیکھا جاتا ہے کہ آبائی رسم ورواج کی پابندی کے لئے ظاہر ی طور پر کسی مسئلہ کے جواز کا سہارا لے لیاجاتا ہے۔ لہذا اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ہمارے ہاں بے شمارایسی رسوم ہیں جو شریعت اسلامیہ کے سراسرمنافی ہیں، ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ بھی ہے جسے عربی زبان میں '' نکاح شغار'' کہاجاتا ہے۔ دین اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری فرمایا ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''کہ اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔''(صحیح مسلم حدیث نمبر 3469) مذکورہ روایت میں ہی شغار کی بایں الفاظ تعریف کی گئی ہےکہ ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو ،میں اپنی بچی کا نکاح تجھ سے کرتا ہوں۔ یہ تعریف ہمارے ہاں رائج نکاح وٹہ سٹہ پر صادق آتی ہے۔ بعض اہل علم کی طرف سے اس قسم کے نکاح کو سند جواز مہیا کی جاتی ہے۔ کہ وہ وٹہ سٹہ کے نکاح میں اگر مہر رکھ دیاجائے تو صرف شرط رکھنے سے اس قسم کا نکاح''شغار''کی تعریف میں نہیں آتا۔ کیوں کہ محدثین کرام نے ا س کی تعریف کرتے وقت'' ان کے درمیان مہر نہ ہو'' کے الفاظ ذکر کیے ہیں، حالانکہ اس قسم کے نکاح کے حرام ہونے کا باعث مہرکا ہونا یا نہ ہونا نہیں ہے۔بلکہ وہ منفی اورانتقامی جذبات ہیں جو غیر شعوری
Flag Counter