Maktaba Wahhabi

357 - 495
کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی کانکاح اس سے کرے گا۔درمیان میں حق مہر بھی نہ ہو۔'' (صحیح مسلم:حدیث نمبر 3465) حضرت ابن نمیر کی تعریف میں حق مہروغیرہ کا ذکر نہیں ہے مطلق طور پر مشروط نکاح کرنا شغار ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح شغار میں مہر کی قید احترازی نہیں بلکہ اتفاقی ہے۔جس کے ہونے یا نہ ہونے سے حرمت نکاح شغار متأثر نہیں ہوتی۔اگرچہ بعض اہل علم کی طرف سے یہ نکتہ اٹھایاجاتا ہےکہ اگر درمیان میں مہر رکھ دیاجائے تو اس قسم کا نکاح''شغار''کی تعریف میں نہیں آتا ،حالانکہ اس نکاح کے حرام ہونے کی وجہ وہ منفی اور انتقامی جذبات ہیں جو غیر شعوری طور پراختلافات کے وقت طرفین میں سرایت کرجاتے ہیں، جیسا کہ معاشرتی طور پر اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے، چونکہ انجام اور نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے،لہذا مہر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے علاوہ کتب حدیث میں ایک واقعہ منقول ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کانکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کردیا اور عبدالرحمٰن بن حکم نے اپنی بیٹی عباس کے عقد میں دے دی اورفریقین نے حق مہر بھی رکھا، جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کاعلم ہواتو انہوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروان کولکھا کہ ان دونوں کے نکاح کو کالعدم قرار دے کر ان کے درمیان تفریق کرادی جائے۔یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔(ابو داؤد کتاب النکاح حدیث نمبر 2075) بعض اہل علم نے یہاں نکتہ اٹھایا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس نکاح کو اس لئے کالعدم قراردیا تھا کہ فریقین نے اس نکاح کو ہی ایک دوسرے کے لئے حق مہر قرار دیاتھا۔اور اس کے لئے ابو داؤد کی اس روایت میں ایک ضمیر کاسہارا لیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جتنے بھی ابوداؤد کے متداول نسخے ہیں ان میں اس ضمیر کا وجود نہیں ملتا،بہرحال اس نکاح وٹہ سٹہ(شغار) کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔لہذا اس سے اجتناب کرنا ہی مومن کی شان ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔لیہ سے محمد حنیف لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بیتے کےلئے کسی سے رشتہ طلب کیا، اس نے مشروط طور پر رشتہ دیا کہ اس کے بدلے ہمیں بھی رشتہ دو، میں نے اپنی چھوٹی بیٹی جس کی عمر دو سال تھی اس کا رشتہ طے کردیا۔ انہوں نے رسم کے طور پر پانی دم کرکے بچی کو پلا دینے کے متعلق کہا جسے میں نے ضائع کردیا ، بعد میں علماءء نے بتایا کہ یہ تووٹہ سٹہ ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ،یہ وضاحت سننے کے بعد میں نے اپنی بیٹی کی منگنی ختم کردی اور فریق ثانی کواس کی اطلا ع کردی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا بچی کو وعدہ نکاح کے وقت پانی پلانا رسم نکاح تھی، لہذا آپ طلاق کے بغیر اس کاآگے نکاح نہیں کرسکتے، اس سلسلہ میں پریشان ہوں بچی جوان ہے، اس کا آگے نکاح کرناچاہتا ہوں۔براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔ جواب۔واضح ہو کہ سوال میں ذکر کردہ صورت ایک وٹہ سٹہ کی شکل تھی جس کو ختم کرناضروری تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:'' کہ اسلام میں وٹہ سٹہ کا وجود نہیں ہے۔''(صحیح بخاری) اس بنا پر منگنی ختم کرنا نہ صرف جائز تھا بلکہ ضروری تھا، اس میں شک نہیں کہ منگنی ایک وعدہ ہوتاہے کہ میں اپنی لڑکی کانکاح فلاں سے کردوں گا۔اس وعدے کو پورا کرنا انتہائی ضروری ہے۔بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو،صورت مسئولہ میں منگنی کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو وٹہ سٹہ کی صورت ہے جو اسلام میں جائز نہیں ۔لہذا ا س وعدہ نکاح کو توڑنا ضروری تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے متعلق
Flag Counter