Maktaba Wahhabi

359 - 495
طور پر اختلافات کے وقت فریقین میں سرایت کرجاتے ہیں۔چونکہ انجام اور نتیجہ کے لحاظ سے اس طرح کا تبادلہ کوئی مفید چیز نہیں ہے جیسا کہ تجربات اس کی شہادت دیتے ہیں۔صورت مسئولہ میں ظاہری طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس کا بھی نتیجہ شغار جیسا ہوتا ہے۔بشرطیکہ اسے حیلہ اور بہانہ سے جائز قرار دے لیا ہو اوراختلاف کے وقت انتقامی جذبات بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہو اصل دارومدار نیت پر ہے۔اگر اس میں کوئی فتور نہیں تو یقیناً اس طرح کانکاح باعث خیروبرکت ہے۔ کیوں کہ دونوں بھائی آپس میں مل بیٹھنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ اگر نیت صرف جواز کا حیلہ تلاش کرنا ہے تو اس غیر مشروط تبادلہ نکاح سے پرہیز کیا جائے کیوں کہ مستقبل میں یہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگا۔ نکاح کے معاملہ میں انسان کو انتہائی دور اندیشی سے کام لینا چاہیے کیونکہ زندگی کا یہ بندھن صرف ایک مرتبہ ہوتاہے۔یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے جب ضرورت پڑے تو لگا لیا جائے اور ضرورت پوری ہوجائے تو اتار دیاجائے ،لہذا ہم لوگوں کو ایسے معاملات نہایت غور وخوض کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچانے چاہئیں، اپنی طرف سے اخلاص کے ساتھ کوشش کرکے پھر معاملات اللہ کے حوالے کردیئے جائیں۔(واللہ اعلم) سوال۔ڈجکوٹ سے عبد القدوس لکھتے ہیں کہ میری آج سے پانچ سال قبل شادی ا پنی خالہ زاد سے ہوئی تھی۔ اور اب ہمارے دو بچے بھی ہیں مجھے والدہ نے کتنی بار بتایا کہ تیری نانی نے کئی بار تجھے دودھ پلایاتھا، اب میں پریشان ہوں کہ ا گر رضاعت ثابت ہوجائے تو تعلقات کیسے ختم کئے جائیں اور بچوں کا کیا بنے گا۔کتاب وسنت کی روشنی میں میری اس الجھن کودور فرمائیں۔ جواب۔واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں خونی تعلق کی بنا پرجو رشتے حرام ہیں دودھ پینے سے بھی وہ حرام ہوجاتے ہیں۔خونی رشتہ کی وجہ سے حرام ہونے والوں میں بھابھی بھی شامل ہے۔نانی کا دودھ پینے سے خالہ زاد بہن رضاعی بھانجی بن جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:''دودھ پینے سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو ولادت یعنی خون سے حرام ہوتے ہیں۔''(صحیح بخاری :کتاب النکاح) صورت مسئولہ میں اگرسائل نے واقعی اپنی نانی کادودھ پیا ہے تو اس کی خالہ زاد بیوی رضاعی طور پر اس کی بھانجی بن جاتی ہے۔ جس سے نکاح جائز نہیں، اس لئے فورا اسے الگ کردیاجائے۔اور بچے وغیرہ والدہ کے ہیں اور وہ اس کے پاس رہیں گے، البتہ والد سے بھی اس اولاد کے تعلقات استوار رہنے چاہئیں۔ اس قسم کاواقعہ خود عہد رسول میں بھی پیش آیا تھا ،حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام یحییٰ بن اھاب سے شادی کرلی ،شادی کے بعد ایک سیاہ فام عورت نے کہا :میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایاہے۔ میں نے اسے کہا کہ مجھےاس کا علم نہیں اور نہ تو نے پہلے ہمیں اس قسم کی خبر دی ہے۔ چنانچہ میں نے سواری لی اور فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلاآیا اور اپنا ماجرا بیان کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ جب وہ عورت اس بات کادعویٰ کرتی ہے تواسے صحیح تسلیم کیاجائے، لہذاتم اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ۔''چنانچہ میں نے مکہ آتے ہی اپنی بیوی کوچھوڑدیا اور اس نے آگے نکاح کرلیا۔(صحیح بخاری، کتاب النکاح) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ پھر اس عورت نے خاوند کے بھائی ظریب بن حارث سے نکاح کرلیاتھا۔(مقدمہ فتح الباری) سوال میں الجھن ضرور ہے کہ اگروالدہ کو اس بات کا علم تھا تو اس نے بوقت نکاح اس کا اظہار کیوں نہ کیا؟لہذا اس بات
Flag Counter