Maktaba Wahhabi

353 - 495
بیوی کا بیٹا دوسری بیوی نے پالا لیکن دودھ نہیں پلایا، میرا بیٹا گویا اس کا بیٹا ہوا ،ایسے حالات میں میری سالی یاخوش دامن اس بیٹے سے پردہ کرے گی یا نہیں؟ جواب۔سوال میں ''میرا بیٹا گویا اس کا بیٹا ہوا''بڑا خطرناک جملہ ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف دو عورتوں کو ماں کامقام دیا ہے۔چنانچہ ایک وہ ماں ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ہیں۔''(58/المجادلہ :2) دوسری وہ ماں ہے جس نے جنم تو نہیں دیا لیکن بچے کو ابتدائی دوسال کی مدت میں کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پلایا ہے، اس کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے: ''اور تمہاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنھوں نے دودھ پلایا ہو۔''(4/النساء :23) پہلی ماں کو حقیقی اور دوسری کورضاعی کہاجاتا ہے۔اس کے علاوہ کسی تیسری عورت کو ماں نہیں کہاجاتا اور نہ ہی اس کی طرف بیٹا ہونے کی نسبت کی جاسکتی ہے۔دوسری بیوی نے صرف پہلی بیوی کے بچے کی پرورش کی ہے۔پرورش کرنے سے وہ بیٹا نہیں بن جائےگا۔البتہ اس سے پردہ نہ کرنے کی دیگر وجوہات ہیں۔ان میں پرورش کرنا یا نہ کرنا اس کو کوئی دخل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو جن محارم کے سامنے اظہار زینت کی اجازت دی ہے،ان میں سے خاوند کا وہ بیٹا بھی ہے جو اس کے بطن سے نہ ہو بلکہ کسی دوسری بیوی سےپیدا ہوا ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اور اپنی زینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں۔۔۔یااپنے خاوند کے لڑکوں کے۔۔۔''(24/النور:31) یہی وجہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی منکوحہ سے نکاح نہیں کرسکتا لیکن دوسری بیوی کی بہن(سالی) اور اس کی ماں(خوش دامن) سے ذکرکردہ لڑکے کا کوئی دودھ یا سسرالی رشتہ نہیں ہے، لہذا انہیں اس سے پردہ کرنا ہوگا ،پردہ نہ کرنے کی رعایت صرف دوسری بیوی کے لئے ہے ،بیوی کی بہنیں اور ماں اس کے لئے غیرمحرم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سوال۔غریب آباد جہانیاں سے حافظ محمدشفیع لکھتے ہیں کہ ایک لڑکی کی اس کے بہنوئی نے پرورش کی اور اس کی شادی کا فریضہ بھی اپنے ہاتھوں سر انجام دیا، اب کیا وہ اپنے بہنوئی سے پردہ کرے گی۔جبکہ اس کی بہن بہنوئی کے نکاح میں موجود ہے۔۔؟ جواب۔پرد ے کے متعلق ارشا د باری تعالیٰ ہے:'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سےاگر تمھیں کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔''(33/الاحزاب:53) روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرچکے تھے کہ آپ کے ہاں بھلے اور بُرے لوگ آتے ہیں، کاش!آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے، اس لئے آپ اللہ کی طرف سے اشارہ کے منتظر رہے۔ آخر کاریہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے علاوہ کوئی مرد آ پ کے گھر نہ آئے۔اور جس غیر محرم کو خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔اگلی آیت میں ان محرم رشتہ داروں کی فہرست ہے جن سے پردہ ضروری نہیں ہے،چنانچہ فرمایا:'' ازواج مطہرات کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں۔''
Flag Counter