کرنا چاہتے جہاں بچپن میں اس کا نکاح ہواتھا لیکن وہ اپنی عزت کو بھی داغدار نہیں کرنا چاہتے۔ اس بنا پر وہ لڑکی کو''خیار بلوغ'' کا فرمادیتے ہیں۔یہ حیلہ اس لئے گارگر نہیں ہے کہ خیار بلوغ عرصہ دراز تک قائم نہیں رہتا۔بلوغ کے عرصہ دراز کے بعد یہ اختیارغیر مؤثر ہوگا ۔لڑکی کو چاہیے کہ اگر وہ اس نکاح کوناپسند کرتی ہے تو سن شعو ر وتمیز کے بعد اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کردے۔اگر پہلے سے اسے علم نہ تھا تو جب بھی بالغ ہونے کے بعد اسے علم ہوتوفورا اپنے خیار بلوغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے کوظاہرکردے، بصورت دیگر طرفین کی خاموشی سے رضا مندی سمجھی جائے گی جس سے خیار بلوغ ساقط ہوجائےگا۔ ( صرف خیار بلوغ کے استعمال سے نکاح فسخ نہیں ہوگا بلکہ اس سلسلہ میں عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے یا اپنے گاؤں کے سر کردہ آدمیوں پر مشتمل پنچایت میں اپنا معاملہ پیش کردیاجائے۔جب تک اپنی پسندیدگی کے اظہار کے بعد عدالت یا پنچایت فیصلہ نہ کرے نکاح فسخ نہیں ہوگا۔(واللہ اعلم) سوال۔وہاڑی سے رضوان اللہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کا کسی ٹیچر لڑکی سے نکاح ہوا ،وہ اس وقت اس کی تنخواہ وصول کررہا ہے اور کہتا ہے کہ عورت کی آمدنی صرف شوہر کے لئے ہے عورت کو جائیداد بنانے کاشریعت نے حق نہیں دیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ جواب۔قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد بھی عورتوں کے حق ملکیت کوبرقراررکھا ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:'' عورتوں کو ان کے حق مہر خوشی سے دیا کرو۔ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے انھیں چھوڑدیں تو اسے ذوق وشوق سے کھالو۔''(4/النساء:4) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہر کے متعلق عورت کاحق ملکیت ثابت کیا ہے، اسی طرح وراثت وغیرہ کے کئی ایک مسائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو جائیداد بنانے کاشرعی حق ہے بلکہ بعض احادیث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض مالدار صحابیات اپنے شوہروں کوزکوۃ بھی دیتی تھی۔چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ اگر میں اپنے خاوند حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر مال زکوۃ صرف کروں تو کیا یہ جائز ہے؟اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ہاں!اس کے لئے دو اجر ہیں۔ایک رشتہ سے حسن سلوک کرنے کا اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔''(صحیح بخاری:کتاب الزکوۃ، باب الزکوۃ علی الزوج) اسی طرح حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بچوں پر مال زکوۃ خرچ کرتی تھیں۔(صحیح بخاری حوالہ مذکورہ) اندریں حالات بیوی کو شریعت نے یہ حق دیا ہے اگر وہ اپنی تنخواہ الگ رکھنا چاہتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے، خاوند کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں زیادتی کامرتکب نہ ہو۔البتہ خاوند کو یہ حق بھی شریعت نے دیا ہے کہ بیوی کی ملازمت اگر حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث ہے تو بیوی کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کرسکتا ہے اور بیوی کے لئے اس کے حکم کی تعمیل ضروری ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔لودھراں سے قاری عمرفاروق ثاقب (خریداری نمبر 5188) لکھتے ہیں کہ میں نے دوسری شادی کی ہے، میری پہلی |