ہماری بہن نے بلوغ کے بعد وہاں رہنے سے انکارکردیا ،ہم نے مقامی مصالحتی کونسل سے تنسیخ نکاح کے احکام حاصل کرلئے ،پھر سول جج سے بھی ڈگری لی، نیز ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی سول جج کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔اب ہم اپنی بہن کی رضا مندی سے اس کی شادی کسی دوسری جگہ کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے شرعی فتویٰ درکار ہے۔ جواب۔شریعت اسلامیہ نے نکاح جیسے اہم معاملہ میں فریقین کی اجازت اور رضا مندی کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ پھر صغرسنی میں ہونے والا نکاح صرف اس صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ لڑکی سن شعور کو پہنچنے کے بعد اپنی رضا مندی کا اظہار کرے اگر وہ بلوغ اور سن تمیز کے بعد اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کردیتی ہے تو اسے اپنا نکاح ختم کرنے کا اختیار ہے۔اگر لڑکا طلاق نہ دے تو عدالتی چارہ جوئی سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ لینا چاہیے۔صورت مسئولہ میں مقامی مصالحتی عدالت اور سول جج سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی ہے۔ اب لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی سے کسی مناسب جگہ پر کیا جاسکتا ہے۔تاکہ لڑکی اپنی زندگی کے باقی ایام باعزت طور پر گزار سکے۔آخر میں ہم یہ کہنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ نکاح کے معاملات جلد بازی اور جذباتی انداز سے طے نہیں کرنے چاہئیں ،بلکہ زندگی کے ا س بندھن کو نہایت سنجیدگی اور پوری چھان پھٹک کے بعد سرانجام دینا چاہیے، تاکہ نکاح کے بعد آنے والی زندگی خوش اسلوبی اور باہمی محبت واتفاق سے گزرے، اصل معاملات تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تاہم ہمیں حکم دیاگیا کہ ہم ایسے معاملات انتہائی غوروخوض کے بعد سرانجام دیں۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔مظفر گڑھ سے محمد اکبر لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کردے تو کیا ایسا نکاح درست ہے۔اگر بالغ ہوکر لڑکی اس نکاح کو تسلیم نہ کرے تو شرعی طور پر اس کا کیا حل ہے؟ جواب۔شریعت کی رو سے بچپن کی حالت میں کیا ہوا نکاح صحیح اوردرست ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی بچپن کی حالت میں ہوا تھا۔جیسا کہ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔قرآن مجید نے بھی اس کے متعلق واضح اشارہ دیا ہے،البتہ نابالغہ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ بالغ ہوجانے کے بعد اسے اختیار ہے چاہے تو سرپرست کے نکاح کو برقرار رکھے یا اسے مسترد کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چند ایک لڑکیوں کو ایسے نکاح رد کردینے کا اختیار دیا تھا جوان کی مرضی کے خلاف کردیئے گئے تھے ،چنانچہ حدیث میں ہے:'' ایک کنواری لڑکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے میری شادی ایسی جگہ پر کردی ہے جسے میں پسند نہیں کرتی ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ تو چاہے تو اسے برقرار رکھے یا فسخ کردے۔''(ابوداؤد :کتاب النکاح) اسی طرح خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے باپ نے میری شادی کردی جو مجھے ناپسند تھی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نکاح فسخ کردیا۔''(بخاری کتاب النکاح) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سر پرست کسی نابالغہ کا نکاح اپنی مرضی سے کردے اور بلوغت کے بعد وہ لڑکی اسے پسند نہ کرے تو اسے پورا پورا اختیار حاصل ہے۔چونکہ اس دور میں اس اختیار کوغلط طور پر استعمال کیاجاتا ہے، اس لئے ناجائز مطلب برآری کی روک تھام کے لئے چند ایک شرائط بیان کی جاتی ہے۔ ( بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین یا سرپرست اپنی برادری کی مجبوری یاباہمی ناچاقی کی وجہ سے اپنی لڑکی وہاں آباد نہیں |