(33/الاحزاب:55) اس فہرست میں بہنوئی کا ذکر نہیں ہے،لہذا اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔اس آیت میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لئے بمنزلہ والدین ہیں یا پھر ان کے ذکر کواس لئے ساقط کردیا گیا ہے کہ بھانجوں اوربھتیجوں کاذکر آجانے کے بعد ان کے ذکر کی حاجت نہیں ہے ، کیوں کہ بھانجے اوربھتیجے سے پردہ نہ ہونے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہے ۔بہرحال بہنوئی ان محرم رشتہ داروں میں شامل نہیں ہےجس سے پردہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ پردہ کے لئے ضابطہ یہ ہے کہ جس سے عورت کا نکاح کسی وقت بھی ہو سکتا ہو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ۔ بہنوئی اپنی سالی سے نکاح کرسکتا ہے، بشرطیکہ اس کی بیوی فوت ہوجائے یا اسے طلاق مل جائے۔ پردے کے متعلق یہ ابتدائی احکام تھے، سورہ نور میں احکام ستر بیا ن کیے گئے ہیں وہاں بھی جن لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے،ان میں بہنوئی شامل نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ وہ(عورتیں) اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے(شوہروں کے بھائی، اپنے بیٹے ،بھائی، شوہروں کے بیٹے، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے۔۔) (24/النور :31) صورت مسئولہ میں ا گرچہ بہنوئی نے اپنی سالی کی پرورش کی اور اس کی شادی کافریضہ بھی اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیا ہے تاہم وہ اس کے لئے محرم نہیں ہے جس سے پردہ اٹھادیا گیا ہو بلکہ وہ ا س کے لئے غیرمحرم ہے جس سے پردہ ضروری ہے۔ سوال۔میاں چنوں سے عبدالمنان سوال کرتے ہیں کہ آیا اپنے دادا کی بھتیجی سے نکاح ہوسکتا ہے؟ جواب۔قرآن کریم نے جن خونی رشتوں کی حرمت کاذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:مائیں 'بیٹیاں'بہنیں'پھوپھیاں'خالائیں'بھانجیاں ان کے علاوہ دیگرخونی رشتوں کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے: ''ان کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لئے حلال کردیاگیا، بشرطیکہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ کرو نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔''(4/النساء:24) صورت مسئولہ میں جس خونی رشتے کا ذکر ہے وہ باپ کی چچا زاد بہن ہے۔اس کا محرمات میں کوئی ذکر نہیں، لہذا یہ حلال اورجائز ہے، اگر باپ کی حقیقی بہن ہوتی تو یہ رشتہ بنص قرآن حرام تھا لیکن مذکورہ رشتہ اس کے علاوہ ہے۔چونکہ حقیقی پھوپھی نہیں ہے اس لئے اسے نکاح میں لایاجاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بیٹیوں میں نواسیاں پوتیاں اور پڑپوتیاں تمام شامل ہیں، اسی طرح بہنوں میں حقیقی مادری اور پدری بہنیں سب حرام ہیں۔ نیز باپ اور ماں کی بہن خواہ حقیقی ہو خواہ مادری یا باپ شریک ،بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے۔اسی طرح بھائی اور بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لئے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں۔(واللہ اعلم) سوال۔ملتان سے محمد سلیم قریشی سوال کرتے ہیں کہ بیوہ اور اس کی لڑکی کا نکاح دو بھائیوں سے ہوجاتا ہے، یعنی ایک بھائی سے والدہ اور دوسرے بھائی سے اس کی لڑکی کا نکاح ہوجاتا ہے۔ کیا ان بھائیوں کی اولاد کا باہمی رشتہ ہوسکے گا یا نہیں؟ جواب۔اس رشتہ ازدواج کے دو پہلو ہیں ،ایک خاوند کی طرف سے اوردوسرا بیوی کی طرف سے اگر خاوندوں کی طرف سے |