Maktaba Wahhabi

347 - 495
پھر ایک دوسرا با ب قا ئم کرتے ہیں : ’’کو ئی با پ یا رشتہ دار کسی کنوار ی یا شو ہر دیدہ کا نکا ح اس کی رضا کے بغیر نہ کر ے ۔‘‘ ان دو نو ں ابوا ب کا منشا یہ ہے کہ نہ تو عورت مطلق العنان ہے کہ وہ اپنی مر ضی سے جہا ں چا ہے نکا ح کر ے اور نہ ہی وہ اس قد ر مقہو ر و مجبو ر ہے کہ اس کا سر پر ست جہا ں چا ہے جس سے چا ہے عقد کر دے بلکہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مز ید وضا حت کرتے ہو ئے ایک عنو ان اس طرح قا ئم کیاہے : ’’اگر کسی نے اپنی بیٹی کا نکا ح اس کی رضا مندی کے بغیر کر دیا تو یہ نکا ح مر دود ہے‘‘ ۔ در حقیقت شریعت اعتدال کو قا ئم رکھنا چا ہتی ہے نہ تو سرپرست کو اتنے وسیع اختیا را ت حا صل ہیں کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کی مر ضی کے بغیر جہا ں چا ہے اس کا نکاح کر دے اور نہ ہی عورت کو اس قدر کھلی آزادی دی ہے کہ وہ از خو د سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر نکا ح کر کے اپنے خا ندا ن کی عزت وآبر و کو خا ک میں ملا دے۔ ہا ں اگر با پ کے متعلق با و ثو ق ذرا ئع سے پتہ چل جا ئے کہ وہ اپنے زیر سر پر ست کے لیے مہر و وفا کے جذبا ت سے عا ری ہے یا اس کے مفا دا ت کا محا فظ نہیں ہے تو وہ خو د بخو د حق ولایت سے محروم ہو جا تا ہے، حدیث میں اس کی وضا حت مو جو د ہے، چنانچہ بعض روایا ت میں’’ ولی مر شد ‘‘کے الفا ظ ملتے ہیں ۔(بیہقی:ج7ص124) جس کا مطلب یہ ہے کہ جو سر پر ست ہمدردی کے جذبا ت سے سر شا ر ہو وہی فریضہ نکا ح کی اجا ز ت کا حق دا ر ہے، بہر حا ل صورت مسئولہ میں بیان کر دہ نکاح سر ے سے منعقد نہیں ہو ا کیو ں کہ حقیقی سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر ہو ا ہے اور وہ اپنی بچی کے متعلق ہمدردی کے جذبا ت بھی رکھتا ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔گو جرہ سے محمد ابرار لکھتے ہیں کہ ایک آدمی شا دی کا خوا ہش مند ہے تلا ش بسیا ر کے با و جو د منا سب رشتہ نہیں مل رہا ،جہا ں با ت چلتی ہے ان کا پہلا مطا لبہ یہ ہو تا ہے کہ پہلے داڑھی کٹا ؤ پھر لڑکی دیں گے۔ ایسے حا لا ت میں کس سنت پر عمل کیا جا ئے جبکہ دو نو ں سنتو ں پر عمل کر نا ضروری ہے ؟ جوا ب۔حا لا ت کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو دیندار اور مذہبی گھرا نے صدائے احتجا ج بلند کیے ہو ئے ہیں کہ ہمیں اپنی لڑکیو ں کے لئے مناسب رشتے نہیں مل رہے، دوسری طرف اس ما حو ل میں دیندار نو جوا ن کہہ رہے کہ ہمیں رشتہ کی خا طر ایک سنت کا خو ن کر نے پر مجبو ر کیا جا رہا ہے۔ دراصل ہما رے اجتما عی دینی نظا م کے فقد ان نے ہمیں ان نا گفتہ بہ حا لا ت سے دو چا ر کر دیا ہے،ہم انفرا دی طو ر پر کتا ب و سنت پر عمل پیرا ہو نے کے دعویدار ضرور ہیں لیکن اجتما عی طو ر پر ہم ماحول برا دری قو م دوست و احباب اور خواہشا ت نفس کے شکنجے میں جکڑ ے ہو ئے ہیں ،اگر ان بتو ں کو پا ش پاش کر دیں تو پیش آمدہ الجھنیں خو د بخو د حل ہو جا ئیں گی، مسلمان کے لیے داڑھی رکھنا ایک شنا ختی علامت اور امتیا زی نشا ن ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ مشر کین کی مخالفت کرو ،داڑھی بڑھا ؤ اور مو نچھیں پست کرو ۔(صحیح بخا ری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک دفعہ ایرا نی مجو سیو ں کا ذکر ہو ا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ یہ لو گ اپنی مو نچھیں بڑھا تے ہیں اور داڑھی منڈاواتے ہیں ،تم ان کی مخا لفت کرو، اپنی داڑھی بڑھا ؤ اور مو نچھیں پست کرو۔‘‘ (ابن حبا ن :4/408) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاری کی مخا لفت کر نے کے متعلق فرمایا ہے کہ’’ تم اپنی داڑھی بڑھا ؤ اور مو نچھیں کٹوا ؤ۔‘‘ (مسند امام احمد:5/265)
Flag Counter