ایک حدیث میں ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیو ی کے لیے اس کے خاوند کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔‘‘ یعنی اس کی اطا عت با عث جنت اور نافر ما نی مو جب جہنم ہے ۔(مسند امام احمد: ج 4 ص 341) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس با ت کی با یں الفا ظ وضا حت فر ما ئی ہے کہ جب عورت نما ز پا نچ وقت ادا کر تی ہے اور اپنے خا وند کی اطا عت کے ساتھ ساتھ عفت و پا کدا منی اختیا ر کرتی ہے تو قیا مت کے دن اسے اختیا ر دیا جا ئے گا کہ جنت میں جس دروازے سے چا ہے دا خل ہو جائے ۔(مسند امام احمد: حدیث نمبر 1661) ان احا دیث کے پیش نظر ہم اس عورت کو نصیحت کر نا ضروری خیا ل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچو ں کو لے کر اپنے گھر چلی آئے تا کہ دنیا کے ساتھ اس کی آخرت بر با د نہ ہو، اس تمہیدی گزارش کے بعد مسئلہ کی وضا حت با یں طو ر پر ہے کہ قرآن و حدیث میں نکا ح کے لیےجو اصول و ضوا بط بیا ن ہو ئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کو ئی عورت اپنے سر پر ست کی اجا ز ت کے بغیر نکا ح نہ کر ے اور سر پر ست کی بنیا د قرا بت و رشتہ داری پر ہے جیسے با پ اور بھا ئی وغیرہ ، نیز قر یبی رشتہ دار کی موجو د گی میں دور کا رشتہ سر پر ست نہیں ہو سکتا کیو ں کہ جو سر پرست با عتبا ر رشتہ جتنا قریب ہو گا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے سر پرست کے لیے شفقت و ہمدردی زیا دہ ہو گی اور وہ اس کے مفا دا ت کا زیا د تحفظ کرے گا، با پ کو اس معا ملہ میں اولیت اس وجہ سے حا صل ہے کہ اس کی موجود گی میں دوسر ا کو ئی رشتہ دا ر سر پر ست نہیں ہو سکتا ،اس والد کی اجاز ت کے بغیر نکا ح منعقد نہیں ہو تا ۔حدیث میں ہے کہ’’ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجا زت کے بغیر نکا ح کیا وہ نکاح با طل ہے بے بنیاد اور بے سروپا ہے، ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے۔ ‘‘(مسند امام احمد :6/145) اسی طرح حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ہے کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے ۔(مسند امام احمد :4/394) امام حاکم اس حدیث کو اپنی مستدرک میں نقل کر نے کے بعدلکھتے ہیں کہ مذکو رہ روایت حضرت علی بن ابی طا لب ، عبد اللہ بن عبا س ، معا ذبن جبل ، عبد اللہ بن عمر ، ابو ذرغفا ری ، مقدار بن اسود ، عبد اللہ بن مسعو د ، جا بر بن عبد اللہ ، ابو ہر یرہ ۃ، عمران بن حصین ، عبد اللہ بن عمرو بن العا ص ، مسرو ر بن مخر مہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے بھی مرو ی ہے، اسی طرح ازواج مطہرا ت حضرت عا ئشہ ،حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہن سے بھی اس مضمو ن کی روا یا ت صحت کے سا تھ مو جو د ہیں ۔ (مستدرک :ج 2ص172) علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جس رو ایت کو دس صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم بیا ن کریں وہ مختا ر مذہب کے مطا بق متوا تر شما ر ہو تی ہے ۔(تد ریب الراوی :ج 2ص117) ان روایا ت کے مطا بق صورت مسئو لہ میں جو نکا ح ہو ا ہے وہ با طل ہے، اس طرح نکا ح کر نے والا جو ڑا گنا ہ کی زندگی بسر کر تا ہے، انہیں اللہ کے حضو ر صدق دل سے تو بہ کر نے کے بعد اپنے والد کو اعتما د میں لے کر از سر نو نکا ح کر نا ہو گا ۔امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ جو امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ان کی مصالح عبا د پر بڑ ی گہر ی نظر ہو تی ہے اس کے ساتھ سا تھ استدلا ل میں وہ نصوص کا پہلو بھی انتہا ئی مضبو ط رکھتے ہیں، انہو ں نے زیر بحث کے متعلق ایک عنو ان با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے: ’’جس شخص کا یہ مو قف ہے کہ ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہو تا ۔‘‘ |