Maktaba Wahhabi

345 - 495
نکا ح کی شر عی حیثیت واضح فرما ئیں ۔ جو اب۔ واضح رہے کہ شریعت اسلا میہ میں کسی عورت کو بذا ت خو د نکاح کر نے کی اجا ز ت نہیں ہے بلکہ نکا ح کے وقت سر پرست کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے، چنا نچہ حدیث میں ہے کہ سر پر ست کے بغیرکو ئی نکا ح نہیں ہو تا ۔(جا مع ترمذی :کتا ب النکا ح حدیث نمبر 1101) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مز ید فر ما یا کہ’’ جو عورت اپنے سر پر ست کی اجازت کے بغیر نکا ح کرے،اس کا نکاح با طل ہے ۔‘‘(مسند امام احمد :6/16) با طل نکا ح وہ ہو تا ہے کہ جو سر ے سے ہو تا ہی نہیں ہے، لہذا صورت مسئو لہ میں یہ نکا ح منعقد ہی نہیں ہو ا ،اس طرح نکا ح کر نے والا جو ڑا گنا ہ کی زندگی بسر کر تا ہے انہیں تو بہ کر کے والدین کو اعتما د میں لا کراز سر نو نکا ح کر نا ہو گا۔ اس مسئلہ کی مز ید و ضا حت با یں طو ر ہے کہ سر پر ست وہ ہو تا ہے جو زیر سرپر ست کا کسی عورت کے رشتہ کے بغیر قرا بت دار ہو، یعنی اس سر پر ستی کی بنیا د قرابت پر ہے ،اس لیے قر یبی رشتہ دار کی موجو د گی میں دور کا رشتہ سرپرست نہیں ہو سکتا کیو ں کہ جو سر پرست با عتبار رشتہ جتنا قر یب ہو گا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے زیر سر پر ست کے لیے شفقت و ہمدردی زیا دہ ہو گی اوروہ اس کے مفا دا ت کا تحفظ زیا دہ کر ے گا، یہی وجہ ہے کہ با پ کو اس معا ملہ میں اولیت حا صل ہے اگر با پ کے متعلق با وثو ق ذرائع سے پتہ چل جا ئے کہ وہ اپنے زیر سر پر ست کے لیے مہر و وفا کے جذبا ت سے عاری ہے یا اس کے مفادات کا محا فظ نہیں ہے تو وہ خو د بخو د حق ولا یت سے محروم ہو جا تا ہے اور یہ حق ولا یت اس کے بعد کے رشتہ دارو ں کو منتقل ہو جا تا ہے، اگر رشتہ دارو ں میں کو ئی بھی مفا دات کے تحفظ کی ضما نت نہ دے تو حق ولا یت حا کم وقت کو منتقل ہو جا تا ہے۔ حدیث میں اس کی صراحت مو جو د ہے، چنا نچہ بعض احا دیث میں "ولی مرشد"کے الفا ظ ملتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ولی جو ہمدردی کے جذ با ت سے سر شا ر ہو وہ فریضہ نکا ح کی اجا زت کا حق دار ہے۔ درج با لا وضا حت سے یہ معلو م ہواکہ ولی کو کھلے اختیا را ت نہیں دئیے گئے کہ وہ جہا ں چا ہے اپنی بچی کا نکاح کر دے اور نہ ہی بچی کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جہا ں چا ہے اس کی مرضی کے بغیر نکا ح کر ے بلکہ ایک دوسرے کے جذبا ت کا احترا م کرتے ہو ئے ہمدردی اور شفقت کی فضا میں نکا ح ہو نا چا ہیے۔ بہر حا ل آج کل جو لڑکیا ں اپنے گھر وں سے فرار ہو کر عدا لت میں از خو د نکا ح کر لیتی ہیں شریعت کی نظر میں ایسا نکا ح سرے سے منعقد نہیں ہو تا، صورت مسئو لہ میں اسی طرح کا نکا ح معلو م ہو تا ہے، لہذا یہ نکا ح نہیں ہے ۔ (واللہ اعلم با لصو اب ) سوال۔میا ں چنو ں سے ع، م خرید اری نمبر 1442 لکھتے ہیں کہ مسماۃ "ف" کا اپنے خاوند سے کسی با ت پر جھگڑا ہو ا تو وہ اپنے بیٹے اور بیٹیو ں کو لے کر گھر سے فرا ر ہو گئی، پھر اس نے اپنے بیٹے کو ولی بنا کر بھتیجے سے اپنی بیٹی کا نکا ح کر دیا جبکہ حقیقی ولی لڑکی کا با پ مو جو د ہے، اس نکا ح کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟ جوا ب ۔بیو ی کا گھریلو جھگڑے کی وجہ سے اپنے بچو ں کو لے کر گھر سے فرار ہو جا نا انتہا ئی با غیا نہ اقدام ہے، حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر کسی عورت سے اس کا خاو ند نا را ض ہے تو اس کے راضی ہو نے تک فرشتے عورت پر لعنت کر تے رہتے ہیں ۔(صحیح مسلم :النکا ح 1436)
Flag Counter